بغداد میں کرفیو میں نرمی، ہلاکتیں تقریباً ایک سو
5 اکتوبر 2019عراقی پارلیمنٹ کے انسانی حقوق کمیشن نے ملکی دارالحکومت اور جنوبی حصے میں مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ترانوے بتائی ہے۔ کمیشن کے مطابق زخمیوں کی تعداد چار ہزار کے قریب ہے۔ بغداد حکومت نے انٹرنیٹ پر تقریباً پابندی عائد کر رکھی ہے اور اس باعث دارالحکومت کے باہر ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
عراقی دارالحکومت میں آج ہفتے سے بظاہر دن کا کرفیو ختم کر دیا گیا ہے لیکن اہم شاہراؤں تک رسائی کو محدود رکھا گیا ہے۔ بازاروں میں لوگوں کو اشیائے ضرورت کی خریداری کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس وقت بھی بغداد شہر میں مجموعی صورت حال عدم اطمینان بخش بتائی گئی ہے۔
وسطی بغداد میں جمعہ چار اکتوبر کو مشتعل مظاہرین کی ایک بڑی تعداد کو کنٹرول کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ بھی کی۔ مقامی انتظامیہ نے آج صبح ہلاکتوں کی تعداد تہتر بتائی تھی۔
مظاہرین کرپشن کے انسداد اور نوکریوں کی فراہمی کے مطالبے کر رہے ہیں۔ میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مظاہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی قلت ہے، خوراک کی کمیابی اور بیروزگاری سے عوام کو فاقوں کا سامنا ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ اگر معیار زندگی کو بہتر بنانے کے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مظاہرین پھر سے سڑکوں پر لوٹ آئیں گے۔
اس دوران عراق کی اہم ترین مذہبی شخصیت آیت اللہ علی سیستانی نے مظاہرے ختم کرنے اور اطراف کو صبر و تحمل کی تلقین کی ہے۔ سیستانی نے سیاستدانوں اور خاص طور پر اراکین پارلیمنٹ کو مظاہروں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے بھی مظاہرین سے کہا ہے کہ اُن کے مطالبات سن لیے گئے ہیں اور اب وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ عبدل المہدی نے کہا کہ شدید مظاہروں کے تناظر میں سلامتی کے سخت اقدامات، جس میں کرفیو کا نفاذ بھی شامل ہے یقینی طور پر مشکل فیصلے تھے۔
ع ح ⁄ ع ا (اے ایف پی، روئٹرز)