بلوچستان: طوفانی بارشوں کے باعث 9 افراد ہلاک، سینکڑوں بے گھر
6 جولائی 2022صوبائی حکومت نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے شہر کو آفت زدہ قرار دیتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔ جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گزشتہ تین دنوں سے وقفے وقفے سے طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ شدید بارشوں سے نشیبی علاقے زیر آب آ گئے ہیں اور بارشوں کا پانی رہائشی علاقوں میں داخل ہوا ہے۔ حکام کہتے ہیں غیرمعمولی بارشوں کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کو محفوظ مقامات پرمنتقل کیا جا رہا ہے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے ) نے الرٹ جاری کیا ہے کہ شہر میں ہنگامی صورتحال کی وجہ سے شہری غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔
نکاسی آب کے ناقص نظام نے حکومتی نا اہلی ظاہر کر دی
کوئٹہ میں بارش سے متاثرہ علاقوں کے عوام نے بدترین حکومتی بد انتظامی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے طوفانی بارشوں کے دوران بروقت ریلیف فراہم کیا ہوتا تو کئی قیمتی جانیں بچ سکتیں تھیں۔ کوئٹہ کے نواحی علاقے سریاب لنک بادینی میں سیلابی پانی سے درجنوں مکانات منہدم ہوئے ہیں۔ بیالیس سالہ ظہور بلوچ بھی ان متاثرین میں شامل ہیں جن کے کچے مکان کے تین کمرے بارش کا پانی گھر میں داخل ہونے کے باعث منہدم ہوئے ہیں۔ ظہور بلوچ کہتے ہیں کہ حکومت ہر سال نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے دعوے کرتی ہے لیکن ان دعوؤں کو عملی جامہ کبھی نہیں پہنایا جاتا۔
اس صورتحال میں متاثرین کہاں جائیں گے؟
ڈی ڈبلیو کو متاثرہ علاقے کا آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے ظہور بلوچ نے کہا، ''حکومت کی کارکردگی یہاں صرف دعوؤں تک محدود ہے۔ عوامی مسائل کا حل حکومتی ترجیہات کا کبھی حصہ ہی نہیں رہا ہے۔ گزشتہ تین دنوں سے یہاں طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سیلابی پانی، مرکزی نالوں کی صفائی نہ ہونے کے باعث لوگوں کے گھروں میں داخل ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ تین دنوں کے دوران نواحی علاقوں میں بڑے پیمانے پر لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے صرف چند خاندانوں کو ایک اسکول کی عمارت میں منتقل کیا ہے جہاں کوئی سہولت دستیاب نہیں۔‘‘
ظہور بلوچ کا کہنا ہے کہ اس وقت متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت نکاسی آب کے مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''یہاں کئی سالوں بعد اس طرح کی غیرمعمولی بارشیں ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ صرف بیانات سے تو عوامی مشکلات کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ سیلابی ریلوں میں کئی لوگ بہہ چکے ہیں ۔ اگر بارشیں اسی طرح جاری رہیں تو صورتحال اس سے بھی گھمبیر ہوسکتی ہے ۔‘‘
بڑے پیمانے پر لوگ بے گھر
ظہور کا مزید کہنا تھا کہ جب سیلابی پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہونا شروع ہوا تو مسلسل رابطوں کے باوجود متعلقہ ریسکیو حکام بروقت وہاں نہیں پہنچ سکے۔ طوفانی بارشوں سے مشرقی بائی پاس، بوسہ منڈٰی، گوہرآباد ، کشمیر آباد اور ملحقہ علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔
پچاس سالہ شوکت بڑیچ بھی ان متاثرین میں شامل ہیں جو مشرقی پاس میں سیلابی ریلے کے باعث بے گھر ہو گئے ہیں۔ شوکت اب مجبوری کے باعث ایک رشتہ دار کے گھر میں اہل خانہ کے ہمراہ مقیم ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت بڑیچ نے علاقے میں بارشوں سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں بتایا، ''جب یہ طوفانی بارشیں شروع ہوئیں تو ہمارے علاقے میں پہاڑی علاقے سے آنے والا سیلابی ریلا لوگوں کے گھروں میں داخل ہوا۔ یہاں چونکہ اکثر مکانات کچے ہیں اس لیے لوگوں کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اکثر مکانات منہدم ہوئے ہیں بعض مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ نکاسی آب کا نظام نہ ہونے کے باعث مقامی لوگ سیلابی ریلے کے نقصانات سے اپنے مکانات کو نہیں بچا سکے۔ اکثر لوگوں نے ایسے گھروں میں پناہ لی جو کہ ریلے سے اونچائی پر واقع تھے۔‘‘
شوکت کا کہنا ہے کہ موسلا دھار بارشوں کے باعث ندی نالوں کا پانی سیلاب کا منظر پیش کر رہا ہے مگر اس پانی کو یہاں سے نکالنے کے لیے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، '' جب تک یہ پانی یہاں سے نہیں نکالا جائے گا صورتحال میں بہتری کس طرح آسکتی ہے؟ لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے ہیں، ان کے پاس اب کوئی چھت میسر نہیں۔ اس گرم موسم میں یہاں نالوں کے پانی سے وبائی امراض پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ حکومت نکاسی آب کے نظام پر توجہ دے۔ جو لوگ اب بھی امداد کے منتظر ہیں انہیں جلد از جلد شیلٹر وغیرہ فراہم کیا جائے ۔‘‘
اصل نقصان حکومت کی جانب سے بتائے جانے والے نقصان سے کہیں زیادہ
وادی کوئٹہ میں نکاسی آب کے منصوبوں پر حکومت نے اربوں روپے کی رقم خرچ کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔ مقامی اولسی نامی کمیٹی کے رہنماء روزی خان کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں حالیہ طوفانی بارشوں کے نقصانات کو حکومت بہت کم پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''دیکھیں اس وقت یہاں ایک ہنگامی صورتحال ہے ۔ سینکڑوں لوگ بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہاں لاکھوں لوگ مقیم ہیں۔ اگر انتظامی معاملات میں اس قدر غفلت کا مظاہرہ ہوتا رہے گا تو عوام کہاں جائیں گے ؟ یہاں جو مقامی آبادی ہے، اسے ندی نالوں کے پانی سے بچانے کے لیے حکومت نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔ پی ڈٰی ایم اے جسیے ادارے کو اس طرح کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہروقت تیار رہنا چاہیے لیکن یہاں صورتحال یکسر مختلف ہے ۔‘‘
روزی خان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کے جنوب مغرب اور شمالی مشرقی حصوں میں بارشوں سے جو تباہی ہوئی ہے اس کے ازالے کے لیے صوبائی حکومت نے تاحال کوئی پلان پیش نہیں کیا ہے۔ ان کے بقول، '' ان بارشوں میں جو جانی اور مالی نقصانات ہوئے ہیں ان کے مکمل اعداد و شمار بھی تاحال حکومت کے پاس نہیں ہیں۔ انفراسٹرکچر کے تباہ ہونے کے اثرات براہ راست مقامی لوگوں پر پڑ رہے ہیں۔ بجلی اور پانی کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ سیلابی پانی کے باعث مشرقی بائی پاس میں مویشی بھی بڑے پیمانے پر ہلاک ہوئے ہیں۔ گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں میں اکثر علاقوں کی بجلی کی فراہمی تاحال معطل ہے ۔ بارش سے متاثرہ علاقوں میں پانی کی بھی شدید قلت پیدا ہوئی ہے ۔‘‘
بلوچستان حکومت متحرک ہے، حکومتی اہلکار
حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم شاہ کہتی ہیں ، مون سون بارشوں کے دوران ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہرممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔ بہت عرصے بعد یہاں اس طرح کی غیر معمولی بارشیں ہو رہی ہیں۔ بارشوں سے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف مہیا کیا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر ایسے افراد کو محفوظ مقامات تک منتقل کیا گیا ہے جنہیں سیلابی ریلوں سے نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا۔ بارش کا پانی رہائشی علاقوں سے باہر نکالنے کے لیے ہیوی مشینری متعلقہ علاقوں میں استعمال کی جا رہی ہے ۔ حکومت کی اولین کوشش یہ بھی ہے کہ متاثرہ علاقوں کے عوام کو راستوں کی بندش کی وجہ سے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‘
فرح عظیم شاہ کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم اے کی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں اورمتاثرہ مکانات کے لوگوں کو قریبی سرکاری عمارتوں میں عارضی رہائش فراہم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''سیلابی ریلوں سے اس لیے بھی زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں کیونکہ کئی افراد نے ندی نالوں کے قریب کچے مکانات تعمیر کیے ہوئے تھے۔ سیلابی پانی نالوں کی بندش کے باعث رہائشی علاقوں میں داخل ہوا ہے۔ چونکہ ان بارشوں کا سلسلہ بدستور وقفے وقفے سے جاری ہے اسی لیے اب بھی بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ حکومت مشکل وقت میں عوامی مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ مون سون کی حالیہ بارشوں سے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے بعض دیگر علاقوں میں بھی کچے مکانات کو شدید نقصانات پہنچنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ۔
ادھر دوسری جانب طوفانی بارشوں سے صوبے کی مختلف رابطہ سڑکیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ صوبائی حکومت نے تمام متعلقہ اضلاع میں مقامی انتظامیہ کو ہائی الرٹ پر رہنے کی ہدایات جاری کی ہیں ۔