بلوچستان کے بچوں کو وٹامن اے کی خوراکیں کیوں نہ دی جا سکیں؟
19 جون 2022کورونا وبا کے بعد پاکستان میں تیزی سے سامنے آتے پولیو کیسز کے بعد حکومت نے اپنی انسداد پولیو مہم تیز کر دی ہے اور 2022ء کے پہلے پانچ ماہ میں دو مرتبہ ملک گیر پولیو مہمات کا انعقاد کیا گیا۔ ہر برس پولیو ویکسین کے قطروں کے ساتھ چھ ماہ سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کو وٹامن اے کی خوراک بھی دی جاتی ہے، جو ان کی بینائی کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
بلوچستان میں وٹامن اے مہم کیوں ملتوی کی گئی؟
بلوچستان کے علاقے جعفر آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی اور پولیو ورکر ببرک کارمل جمالی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ 23 مئی کو ملک کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان میں بھی پولیو ویکسینیشن مہم معمول کے مطابق شروع ہوئی تھی۔ پولیو قطروں کے ساتھ وٹامن اے کی خوراک جو کیپسول کی صورت میں ہوتی ہے، مختلف ڈسٹرکٹ کے دفاتر سے یونین کونسل تک پہنچ گئی تھی۔
بعد ازاں فیلڈ ورکرز کو ہدایت کی گئی کہ چونکہ کیپسول کاٹنے کے لیے سرجیکل قینچیاں انہیں فراہم نہیں کی گئیں اس لیے وٹامن اے کیپسول بچوں کو نہیں دیے جائیں۔ لہذا بلوچستان بھر میں ٹیمیں بچوں کو صرف پولیو کے قطرے پلا کر لوٹ گئیں۔
کیپسول کاٹنے کے لیے کس طرح کی قینچی کا استعمال ہوتا ہے؟
ببرک جمالی گزشتہ سولہ سال سے بلوچستان میں پو لیو ورکر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کے استفسار پر بتایا کہ بلوچستان میں وٹامن اے کیپسول کو کاٹنے کے لیے سادہ قینچیاں ہی استعمال ہوتی رہی ہیں، جو ورکرز کو ہر دفعہ حکومت فراہم کرتی ہے، ''مگر یہ بازار سے با آسانی دستیاب ہیں۔ لہذا جب ورکرز کو ہدایت کی گئی کہ وٹامن اے خوراک اس بار بچوں کو نہیں دی جائی گے تو ہمیں کافی تشویش ہوئی۔‘‘
وٹامن اے خوراک بچوں کو نابینا پن سے محفوظ رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ بلوچستان میں غذائی قلت کے باعث پانچ سال تک کی عمر کے بچوں میں دبلا یا لاغر پن، انتہائی سست نشونما اور آئرن کی کمی کی وجہ سے جسمانی و ذہنی معذوری کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں، جو ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔
بلوچستان میں پولیو ورکرز کی مشکلات
ببرک جمالی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ 23 مئی سے شروع ہونے والی پولیو مہم شروع سے ہی مسائل کا شکار تھی۔ ان کے بقول بلوچستان کے متعدد علاقے اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں اور مئی کے آخری ہفتے میں گرمی کی تازہ لہر کے باعث سبی، جعفر آباد، نصیر آباد وغیرہ میں درجۂ حرارت 50 سینٹی گریڈ ڈگری تک پہنچ چکا تھا۔
شیرانی اور آس پاس کے علاقوں میں واقع چلغوزے کے جنگلات انہی دنوں شدید آگ کی زد پر تھے۔ ایسے حالات میں گرمی سے بچاؤ کے لیے ورکرز کو ٹوپیاں اور چھتریاں تک فراہم نہیں کی گئی تھیں۔
ببرک جمالی بتاتے ہیں کہ شدید گرمی میں پولیو ویکسین کی کولڈ چین برقرار رکھنا ایک مشکل امر ہوتا ہے کیونکہ اس کے لیے آئس پیک کی ضرورت ہوتی ہے، ''مگر بلوچستان کے باہمت ورکرز نے یہ کولڈ چین اپنی مدد آپ کے تحت برقرار رکھ کر بچوں تک ویکسین پہنچا کر ثابت کیا کہ اگر جذبہ ہو تو کم وسائل کے ساتھ بھی بڑے کام کیے جا سکتے ہیں۔‘‘
بلوچستان کے ضلع ژوب سے تعلق رکھنے والے پولیو ورکرعلیم بلوچ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بلوچستان میں آبادی دور دراز علاقوں تک پھیلی ہوئی ہے، ''شدید گرمی میں پیدل ان علاقوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ کچھ ورکرز کے پاس اپنی بائیک ہیں مگر پانچ روزہ مہم کے دوران پیٹرول کی مد میں محض 12 سو روپے دیئے گئے تھے حالانکہ پیٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔‘‘
علیم بلوچ کا کہنا ہے، ''جتنی محنت ہم پولیو ویکسین گھر گھر پہنچانے اور بعد ازاں ڈیٹا تیار کرنے میں کرتے ہیں اس کی مناسبت سے ہمیں معقول تنخواہ بھی نہیں دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں ورکرز کا جذبہ کم ہو رہا ہے، جس میں خواتین کارکنان بھی شامل ہیں، جن کے مسائل ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔‘‘
حکومتی مؤقف کیا ہے؟
بلوچستان ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈینیٹر حمید اللہ ناصر کا 23 سے 28 مئی تک جاری رہنے والی پولیو مہم کے بارے میں کہنا ہے کہ اس دفعہ پولیو ٹیموں کی مانیٹرنگ جی پی ایس کے ذریعے کی گئی اور فوری دستیاب اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں ویکسینیشن کی شرح بڑھ کر 97 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے ۔
تاہم دوردرازعلاقوں میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے ورکرز کے مسائل اور وٹامن اے کیپسول مہم کے التوا کی وجوہات جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے متعدد سرکاری اہلکاروں سے رابطہ کیا، جو کامیاب نہیں ہو سکا۔ ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر صرف اتنا بتایا کہ وٹامن اے کی خوراک اگلی مہم میں بچوں کو دے دی جائی گی۔