بلوچستان میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات
25 نومبر 2024بلوچستان میں اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف آج بروز پیر صوبے بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔ اس دوران مظاہرین نے بلوچستان کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی تمام بڑی شاہراہوں کو بطور احتجاج بلاک کیے رکھا۔
بلوچستان میں ہائی اسیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کے احکامات پر صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں بھی آج عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال پر عوامی حلقوں نے شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
پشین سے تعلق رکھنے والے گیارہ سالہ طالب علم محمد مصور کو بھی کوئٹہ کے علاقے پٹیل باغ سے 15 نومبر کو اسکول وین سے اتار کر اغوا کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے خلاف بلوچستان اسمبلی کے سامنے گزشتہ دس یوم سے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ دھرنے میں سول سوسائٹی، وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سمیت خواتین اور بچوں کی ایک کثیر تعداد شریک ہے۔
دھرنے میں موجود پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی رہنماء نصراللہ خان کہتے ہیں کہ اغوا کے ان واقعات کے باعث صوبے میں اسکول، کالجز اور یونیورسٹی جانے والے طلبا و طالبات شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
بلوچستان میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف ’جامع‘ فوجی آپریشن کی منظوری
انہوں نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''بلوچستان میں قیام امن کے حوالے سے حکومتی اقدامات صرف دعوؤں تک ہی محدود ہیں۔ اس سرد موسم میں مظاہرین گزشتہ دس یوم سے یہاں سراپا احتجاج ہیں۔ حکومتی ٹیمیں مذاکرات کے نام پر صرف بڑے بڑے دعوے کر کے چلی جاتی ہیں لیکن مغوی کی بازیابی میں اب تک کامیابی نہیں ہو سکی۔ والدین عدم تحفظ کی وجہ سے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے کترانے لگے ہیں۔‘‘
ایک پولیس عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کوئٹہ میں رواں برس بچوں کے اغوا کے 29 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں ملوث چھ ملزمان کو پولیس اب تک گرفتار جبکہ 13 مغوی بچوں کو بازیاب کر چکی ہے۔ بچوں کے اغوا میں ملوث 12 دیگر نامزد ملزمان تاحال روپوش ہیں۔ بلوچستان میں اغوا کے بعض ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں، جن کے مقدمات سے متعلق پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
نصراللہ خان کا کہنا تھا کہ حکومتی بے حسی کی وجہ سے کوئٹہ سیف سٹی منصوبے کے زیادہ تر کیمرے خراب پڑے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا، ''حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں یکسر ناکام ہوتی جا رہی ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں سیف سٹی منصوبے کے نو سو میں سے چھ سو کیمرے خراب پڑے ہیں۔ پولیس اور دیگر ادارے اب تک اغوا کاروں کا کوئی سراغ نہیں لگا سکے ہیں۔‘‘
محمد مصور کو کوئٹہ میں کس نے اغوا کیا؟
مقامی تاجر اور مغوی بچے محمد مصور کے چچا حاجی ملنگ کہتے ہیں اغوا میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس نے دعوے تو بہت کیے ہیں لیکن کیس میں اب تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ ڈ ی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہمارے بچے مصور کو شہر کے انتہائی بارونق علاقے سے اغوا کیا گیا ہے۔ پولیس کے پاس سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ اغوا کی وجوہات ہمیں اب تک معلوم نہیں۔ اس سے قبل بھی یہاں مسلسل ایسے ہی واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ یہاں احتجاجی کیمپ میں آنے والے حکومتی اداروں کے لوگ صرف تسلیاں دے کر چلے جاتے ہیں، بچے کو بازیاب نہیں کیا جا رہا۔‘‘
حکومت بلوچستان میں دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام کیوں؟
حاجی ملنگ کا کہنا تھا کہ دھرنا مظاہرین کے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو احتجاج کا دائرہ کار ملک بھر تک بڑھا دیا جائے گا۔
سیاسی کارکنوں اور طالب علموں کی گمشدگی کے واقعات میں بھی اضافہ
بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف سراپا احتجاج بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بھی صوبے کے مختلف علاقوں سے مزید کئی بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کا دعویٰ کیا ہے۔
کوئٹہ میں جاری کیے گئے بی وائی سی کے ایک بیان کے مطابق 24 نومبر کو شورش زدہ ضلع نوشکی سے نصیب اللہ، جبکہ 22 نومبر کو آواران سے دل جان بلوچ نامی نوجوان کو اغوا کیا گیا۔ ان افراد کی گمشدگی کے مقدمات بھی تاحال درج نہیں کیےگئے ہیں۔
بلوچ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی کے درجنوں دیگر واقعات بھی صوبے کے دیگر علاقوں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ بی وائی سی کی کال پر ان واقعات کے خلاف مختلف بلوچ اکثریتی علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
مغویوں کی بازیابی کے لیے حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے؟
صوبائی محکمہ داخلہ کے ایک سینئر اہلکار رؤف بلوچ کہتے ہیں کہ اغوا کے ان واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے صوبائی حکومت تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئےکہا، ''بچوں کے اغوا کے، جو واقعات بلوچستان میں رپورٹ ہوئے ہیں، ان میں کئی مغویوں کو بازیاب کیا جا چکا ہے۔ کمسن مصور کی بازیابی کے لیے خصوصی ٹیم کام کر رہی ہے اور سیریس کرائم انوسٹی گیشن یونٹ نے تمام شواہد کا جائزہ لیا ہے۔ بچے کی بحفاظت بازیابی کے لیے ہونے والی کوششوں میں جلد مثبت پیش رفت کا امکان ہے۔‘‘
رؤف بلوچ کا کہنا تھا کہ قوم پرست تنظیموں کی جانب سے مختلف علاقوں میں بلوچ طالب علموں کی گمشدگی کے، جو دعوے سامنے آئے ہیں، ان پر بھی سنجیدگی سے کام کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول ، ''دیکھیں طلبا کی گمشدگی کے حوالے سے بعض اوقات قوم پرست تنظیموں کے دعوے صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تک محدود رہتے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کی جانب سے پولیس، لیویز یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کوئی رابطہ نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی فرد لاپتہ ہے تو متاثرہ خاندان کی جانب سے مصدقہ شواہد کے ساتھ متعلقہ پولیس یا لیویز سے رابطہ کرنا چاہیے۔‘‘
واضح رہے کہ بلوچستان میں اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا ہے اور صوبائی حکومت کو مغویوں کی بازیابی کے لیے موثر اقدامات کی ہدایت کی ہے۔