بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر، 17 ہلاک
6 جولائی 2015پاکستانی صوبہ بلوچستان کو دہشت گردی کی تازہ لہر نے ایک بار پھر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ شہری علاقوں میں ہونے والے بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے مختلف واقعات کی ذمہ داری علیحدگی پسند کالعدم بلوچ باغی تنظیوں نے قبول کی ہے ۔ ان تنظیموں نے حالیہ حملوں کو بلوچستان میں جاری سکیورٹی فورسز کے آپریشن کا رد عمل قرار دیا ہے۔
ان پرتشدد واقعات میں ہلاک ہونے والوں میں ہزارہ کیمونٹی کے افراد بھی شامل ہیں جنہیں کوئٹہ کے علاقے جائنٹ روڈ اور سرکی روڈ پر نشانہ بنایاگیا۔
سی سی پی او کوئٹہ، عبدالرزاق چیمہ کے بقول شیعہ مسلمانوں پرہونے والےتازہ حملوں میں چھ افراد ہلاک جبکہ ایک خاتون سمیت تین دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ’’کوئٹہ میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی لہر پہلے سے موجود تھی لیکن سکیورٹی فورسز کے حالیہ آپریشن کے رد عمل میں اس میں مزید تیزی آ گئی ہے۔ جائنٹ روڈ پر پاسپورٹ آفس کے سامنے جن افراد کو آج نشانہ بنایا گیا ہے ان کا تعلق ہزارہ کیمونٹی سے تھا۔‘‘
سیکرٹری داخلہ بلوچستان اکبرحسین درانی کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے بعد صوبہ بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا، ’’دہشت گردی میں ملوث تنظیمیں شہری علاقوں کو سافٹ ٹارگٹ ہونے کے باعث نشانہ بنا ر ہی ہیں۔ ان حملوں کا مقصد حکومتی رٹ کو فیل کرنا ہے۔‘‘
کوئٹہ کے علاوہ تربت، گوادر، پنجگور، بولان اور دیگر علاقوں میں بھی پرتشدد واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ شدت پسندوں کے ان حملوں کے نتیجے میں اب تک 11 افراد ہلاک جبکہ 45 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں ایسے 21 افراد بھی شامل ہیں جنہیں بم دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ حکام کے مطابق ان حملوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد میں سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
ان تازہ حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیموں بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچستان ریپبلکن آرمی، بلوچستان لبریشن آرمی اور دیگر نے قبول کی ہے۔ کالعدم تنظیموں نے دعوٰی کیا ہے کہ ان کے جنگجووں نے بلوچ علاقوں آواران، تربت، گوادر، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، سبی اور دیگر علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کے رد عمل میں یہ حملے کیے ہیں۔
کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف مشتعل افراد نے آئی جی پولیس بلوچستان کے دفتر کے سامنے مقتولین کے لاشوں کے ہمراہ دھرنا بھی دے رکھا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ کوئٹہ میں ہزارہ کیمونٹی کے افراد کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور شدت پسند چن چن کر انہیں مار رہے ہیں مگر حکومت ان کےتحفظ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی۔
آج پیر چھ جولائی کو ہی کوئٹہ میں ایک غیر سرکاری تنظیم سحر کے ایک سینئر اہلکار عبدالرؤف جمالدینی کو بھی نامعلوم افراد نے جناح ٹاون کے علاقے میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ اس حملے کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے ۔