1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں طالبان نواز مذہبی شخصیات کے خلاف کریک ڈاؤن

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ18 مارچ 2015

پاکستانی صوبہ بلوچستان کی حکومت نے طالبان کی انتہا پسندانہ سوچ کی حامی ان افغان اور پاکستانی مذہبی شخصیات کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے جو اپنی تقاریر کے ذریعے عام لوگوں کی طالبان میں شمولیت کی خفیہ مہم چلا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Esk3
تصویر: DW/A.G.Kakar

صوبائی محکمہ داخلہ کے ذرائع نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مشتبہ مذہبی شخصیات اور علماء کی گرفتاری کے لیے پہلے مرحلے میں ان کی فہرستیں مرتب کی جائیں گی اور بعد میں سکیورٹی فورسز کو ان کی گرفتاری کے لیے کارروائی کے احکامات جاری کیے جائیں گے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کے بقول طالبان کے شدت پسندانہ ایجنڈے پرعمل پیرا مذہبی اسکالرز کے خلاف اس کارروائی کا فیصلہ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے اور حکومت امن کے قیام اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدامت کر رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا، ’’قبائلی علاقوں میں پسپائی کے بعد پاکستانی طالبان ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی دوبارہ اپنی تحریک کو فعال بنانےکی کوششوں میں ہیں۔ اس مہم کے لیے انتہا پسند اپنے حامی عناصر کے ذریعے اپنےایجنڈےکا پرچار کر رہے ہیں، جس کی روک تھام ہماری اولین ترجیح ہے۔‘‘

وزیر داخلہ بگٹی نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت بلوچستان کے شہری علاقوں اور کیمپوں میں مقیم افغان مہاجرین پر بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور تمام افراد کا بائیو ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’صوبائی ایپیکس کمیٹی نے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے مؤثر تجاویز پیش کی ہیں، جن کی روشنی میں شدت پسند عناصر کے خلاف ٹھوس بنیادوں پر کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ بلوچستان حکومت نے ضلعی انٹیلیجنس کوآرڈینیشن کمیٹیاں (DICCs) بھی قائم کی گئی ہیں تاکہ ایک جامع طریقہء کار کے تحت شدت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکے۔‘‘

Protest gegen Überwachung von Geistlichen in Pakistan
تصویر: DW/A.G.Kakar

پاکستان کے ایک اعلٰی خفیہ ادارے کے ایک سینیئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے شمال مشرقی اور جنوب مغربی علاقوں میں شدت پسند مذہبی تعلیمات کی آڑ میں لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک خفیہ مہم شروع کی گئی ہے، جس کے لیے بڑے پیمانے پر مذہبی شخصیات کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس سینیئر اہلکار نے مزید کہا، ’’قومی سلامتی کے اداروں کی بلوچستان میں تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال پر خصوصی نظر ہے۔ شدت پسندوں کا خفیہ نیٹ ورک توڑنے کے لیے سکیورٹی ادارے ہر ممکن قدم اٹھا رہے ہیں اور ایسےتمام لوگوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے جو اشتعال انگیزی، مذہبی منافرت اور انتہا پسندی میں ملوث ہیں۔ بلوچستان میں حالیہ کارروائیوں کے دوران شدت پسندوں کے کئی اہم کمانڈر ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ ملک میں قومی ایکشن پلان کے نفاذ سے شدت پسندوں کی حکومت مخالف تحریک کو بڑا دھچکا لگا ہے۔‘‘

بلوچ سیاسی امور کے ماہر ندیم خان کہتے ہیں کہ صوبے کے قبائلی علاقوں میں انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بنیادی وجہ حکومتی ڈھانچے کی کمزوریاں ہیں۔ اس لیے حکومت کو اس طرف بھی خصوصی توجہ دینا ہو گی۔

ندیم خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’حقیقتاﹰ دیکھا جائے تو شدت پسندوں نے اسلام کے تصور کو سختی سے مسخ کیا ہے۔ یہ لوگ اسلامی تعلیمات کو غلط طریقے سے پیش کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اسلامی قوانین کے نفاذ میں زمینی حقائق کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ شدت پسند اسلام کی اصل تعلیمات اور ترقی پسندی کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ اسی لیے مذہبی کلچر میں کم علمی کی وجہ سے عدم برداشت اور تنازعات کی جانب جھکاؤ بڑ ھتا جا رہا ہے۔‘‘

صوبہ بلوچستان میں قو می ایکشن پلان کے تحت اب تک 1641 دینی مدارس کی چھان بین کا کام مکمل کیا جا چکا ہے اور اس حوالے سے ضلعی انٹیلیجنس کوآرڈینیشن کمیٹیوں نے کوئٹہ میں صوبائی حکومت کو اپنی رپورٹیں بھی پیش کر دی ہیں۔

بلوچستان کے محکمہ انڈسٹریز میں 2441 دینی مدارس سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 2010 کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔ حکومت ان مدارس کو بھی قواعد و ضوابط کے تحت رجسٹرکر نے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، جنہیں مختلف وجوہات کی بناء پر اب تک رجسٹر نہیں کیا گیا۔