بلوچستان میں حملہ، دو پاکستانی فوجی ہلاک
24 دسمبر 2021یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب سکیورٹی فورسز پر پاکستانی طالبان کے حملوں میں اضافے کی ایک لہر دیکھی جا رہی ہے۔ پاکستانی حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ ان شدت پسندوں کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں۔
مذاکرات کامیاب، گوادر میں طویل ترین احتجاجی دھرنا ختم
ٹی ایل پی کالعدم تنظيموں کی فہرست سے خارج: کیا دوسری تنظیموں سے بات چیت نہیں ہونی چاہیے؟
پاکستانی وزیراعظم عمران خان اپنے ایک حالیہ بیان میں عندیہ دے چکے ہیں کہ حکام پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستانی طالبان کے حوصلے بھی بڑھے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ پاکستانی فوج افغانستان سے ملحق کئی اضلاع میں طویل فوجی آپریشن کر چکی ہے اور فوجی دعویٰ ہے کہ ملک سے پاکستانی طالبان کے ڈھانچے کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں ماضی کے مقابلے میں طالبان کے حملوں میں خاصی کمی تو دیکھی گئی ہے تاہم وقتاﹰ فوقتاﹰ عسکریت پسندوں کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیاں دیکھنے میں بھی آتی رہتی ہیں۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور پسماندہ صوبہ ہے، جہاں مذہبی شدت پسندوں کے علاوہ فرقہ وارنہ بنیادوں پر متحرک عسکریت پسند اور قوم پرست باغی سرگرم ہیں۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق بلوچستان میں تشدد کے زیادہ تر واقعات میں قوم پرست باغی ملوث ہوتے ہیں، جو پاک چین اقتصادی راہ داری کے منصوبے سے خائف ہیں اور بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری کو رد کرتے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت بلوچستان میں سڑکوں اور دیگر انفراسٹکچر پر کام ہو رہا ہے۔ اسی صوبے میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر شیعبہ ہزارہ برداری پر حملوں کے واقعات بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔
ع ت، ع ب (ڈی پی اے)