1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: نوزائیدہ بچیوں کو لاوارث چھوڑنے کا تشویشناک رجحان

30 دسمبر 2024

پاکستان کے صوبے بلوچستان میں نوزائیدہ بچیوں کو پیدائش کے بعد لاوارث چھوڑنے کا ایک تشویشناک رجحان دیکھنے میں آرہا ہے ۔ ماہرین کے خیال میں حکومتی سطح پر اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات ضروری ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ogTC
کوئٹہ کے مقامی ہسپتال میں ایک بچی کو پیدائش کے بعد لاوارث چھوڑ دیا گیا
ایک 8 ماہ کی لاوارث بچی کوئٹہ کے مقامی ہسپتال کے انکیوبیٹر میںتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

غیرسرکاری اعدادوشمار کےمطابق گزشتہ 8 ماہ کے دوران صوبے بلوچستان کے مختلف  ہسپتالوں اور زچگی مراکز میں35 سے زیادہ نوزائیدہ بچیا ں لاوارث پائی گئیں کیونکہ ان کے والدین کی شناخت زچگی سے  قبل  درج کرائی گئیں معلومات سے ممکن نہیں ہوئی ۔ زرائع کے مطابق  رواں سال لاوارث نوزائیدہ بچیوں کے اکثر کیسز ، کوئٹہ ، لورالائی ،تربت ، پشین،  دالبندین اور بعض دیگر  ملحقہ علاقوں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

بچیوں کو لاوارث چھوڑنے والی بعض خواتین   کی شناخت افغان مہاجرین کے طور پر کی گئی ہے ۔ ایسی متعدد خواتین نے ہسپتالوں اور زچگی مراکز میں درست کوائف  بھی درج  نہیں کرائے تھے ۔ کوئٹہ کے ایک  مقامی ہسپتال میں تعینات ماہر امراض نسواں ڈاکٹر رابعیہ احمد کو بھی چند یوم قبل ہسپتال کے زچگی وارڈ میں ایک ایسی ہی لاوارث بچی ملی تھی جس کی ماں  نارمل ڈیلیوری کے بعد وہاں  سے  بغیر کچھ بتائے چلی گئی تھی۔

رابعیہ کہتی ہیں کہ دس یوم قبل ہسپتال کے گائنی وارڈ میں ملنے والی 8 ماہ کی لاوارث  بچی کو انہوں نے انکیوبیٹر  میں ڈال دیا تھا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ’’دیکھیں اس  بچی کی ماں نے ڈیلیوری  سے قبل جو معلومات ہسپتال کے زچہ بچہ وارڈ میں درج کرائی تھیں وہ  درست نہیں تھیں ۔ ہم   نےتین یوم  تک بچی کے حقیقی والدین کا انتظار کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ۔ ہسپتال میں جس خاتون کے ہاں اس بچی کی ولادت ہوئی تھی وہ افغان مہاجر بتائی گئی تھی۔ ‘‘

نومولود پاکستانی بچوں میں شرح اموات: مناسب نگہداشت ہر بچے کا بنیادی حق

ڈاکٹر رابعیہ کا کہنا تھا کہ  بچیوں کو لاوارث چھوڑنے والی اکثر حاملہ خواتین جب  زچگی وارڈز جاتی ہیں تو وہ انتظامیہ کو درست معلومات فراہم نہیں کرتیں ۔

انہو ں نے مزید کہا، ’’ ہمارے پاس اکثر اوقات اوپی ڈیز میں جب حاملہ خواتین چیک اپ کے لیے آتی ہیں تو ان کا  یہ اسرار ہوتا ہے کہ بچے کی جنس انہیں بتائی جائے اگر لڑکا ہوتو ہم معلومات   فراہم کردیتے ہیں لیکن بچی کی صورت میں اکثر ڈاکٹرز کی جانب سے معلومات فراہم  نہیں کی جاتیں۔ بعض حاملہ خواتین بچوں کی جنس معلوم ہونے کے بعد  گھریلو حالات کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتی ہیں جس سے ان کی ڈیلیوری کا عمل بھی شدید متاثر ہوتا ہے ۔‘‘

کوئٹہ کا ایک مقامی ہسپتال
پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا ہسپتالتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

سماجی روایات اور لاوارث بچیوں کا المیہ

کالج آف فیزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی ریجنل ڈائریکٹر   پروفیسر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ غربت ، تعلیم کی کمی اور سماجی روایات کے  دباؤ کے باعث  بچیاں بنیادی حقوق سے محروم  ہو رہی ہیں ۔

ڈویچے ویلے سے گفتگو  کرتے ہوئے انہوں  نے کہا، ’’بلوچستان میں خواتین کی صحت اور زچگی سے متعلق  بعض  معاملات یقیناً بہت گھمبیر ہیں ۔ بچیوں کو بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے کئی محرکات ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہاں کمپیوٹرائزڈ اعدادوشمار بھی دستیاب نہیں ہیں ۔  صوبے کے    اکثر بڑے سرکاری ہسپتالوں میں حاملہ خواتین کے کوائف صرف رجسٹروں میں درج کیے جاتے ہیں  ۔بعض اوقات یہ کوائف درست بھی نہیں ہوتے اس لیے ولادت کے بعد بچے کی شناخت کا معاملہ پیچیدہ  شکل اختیار کرجاتا ہے۔‘‘

بچہ کھو دینے والی ماؤں کو مدد درکار ہوتی ہے

یو اے ای: شادی کے بغیر ضرور رہیں لیکن بچے کا اندراج نہیں؟

ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں زچگی کے پیچیدہ  کیسز اکثر  رات کے اوقات میں رپورٹ ہوتے ہیں  کیونکہ اس  وقت  پرائیویٹ  میٹرنٹی ہسپتال اکثر بندرہتے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا، ’’بلوچستان میں زچگی کی سہولیا ت فراہم کرنے والے نجی شعبے کے ادارے بھی کئی مسائل کا شکار ہیں ۔نجی اور سرکاری  سطح پر ہسپتالوں میں  اگر زچگی کیسز کے کوائف کے اندراج کا عمل جامع اور ایس او پیز پر عمل درآمد سختی سے یقینی بنایا جائے تو بچیوں کی ولادت کے بعد انہیں لاوارث چھوڑنے کے واقعات میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔‘‘

کوئٹہ کے مقامی ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ
کوئٹہ کے مقامی ہسپتال کے زچگی وارڈ میں اکثر لاوارث نوزائیدہ بچی ملتی ہےتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

لاوارث بچیوں کی حفاظت اور معاشرتی ذمہ داریاں

پشین  میں مقیم 45 سالہ حسینہ بی بی  نے سات ماہ  قبل ایک لاوارث بچی کو گود لیا تھا کہتی ہیں بچی کو نجی ہسپتال  میں والدین  رات کے وقت ولادت کے بعد لاوارث چھوڑ گئے تھے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں  نے کہا،''مقامی ہسپتال میں تعینات ایک  لیڈی ہیلتھ ویزیٹر ہمارے محلے میں رہتی ہیں ،  انہیں معلوم تھا کہ ہم اولاد کی نعمت سے محروم ہیں ۔ ایل ایچ وی سے موصولہ معلومات پر ہم  نے ہسپتال میں لاوارث بچی گود لینے کی درخواست کی جو کہ ضروری اقدامات کے بعد ہمارے حوالے کردی گئی ۔ ہمیں بہت خوشی ہے کہ ہمیں اس بچی کی کفالت کا موقع ملا ہے ۔‘‘

فضائی آلودگی سے پانچ لاکھ نوزائیدہ بچے ہلاک

حسینہ بی بی کا کہنا تھا کہ  بچیوں کو لاوارث چھوڑنے کے دل دہلا دینے والے واقعات کی روک تھام کے لیے خصوصی اقدامات ہونے چاہیں  تاکہ معصوم بچیوں کی زندگیاں داؤ پر نہ لگ سکیں ۔    

لاوارث بچیوں کے مسائل کو کیوں  نظر انداز کیا جا رہا ہے ؟

پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے آبادی کے سینئر عہدیدار ، ڈاکٹر سرمد سعید خان کہتے ہیں  کہ نوزائیدہ  بچیوں کو لاوارث چھوڑنے کے واقعات پر قابو پانے کے لیےجامع قانون سازی کی ضرورت ہے ۔

ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’بلوچستان میں لاوارث بچیوں  سے متعلق جو اطلاعات سامنے آئی ہیں وہ بہت تشویشناک ہیں ۔  ہم مختلف زاویوں سے اس تمام صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ ہماری ٹیمیں صوبے کے دورافتادہ  علاقوں میں شادی شدہ  خواتین کے سماجی اور صحت سے متعلق مسائل کے حل کے لیے بھی کام کر رہی ہیں ۔ خواتین کی صحت سے متعلق بعض معاملات پر سنگین معاشرتی ناہمواریوں  بہت اثرانداز ہیں ۔‘‘

ڈاکٹر سرمد سعید کا کہنا تھا کہ گھروں میں حاملہ خواتین کو جن مسائل کا سامنا رہتا ہے  اگر ان کے حل پر توجہ دی جائے توبچیوں کو ولادت کے بعد ترک کرنے کے واقعات میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔انہوں  نے مزید کہا، ’’بلوچستان میں حاملہ خواتین کے لیے بہتر سہولیات کی فراہمی اور مشاورتی خدمات کے لیے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے آبادی نے متعلقہ حکام سے بھی رابطہ کیا ہے  اور معاونت کی پیشکش کی ہے ۔حکومتی سطح  پر اس تمام صورتحال کی بہتری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘

مالکہ حاملہ یا اسقاط حمل ہو چکا، کتے یہ بھی سونگھ لیتے ہیں

بلوچستان میں نوزائیدہ بچیوں کو پیدائش کے بعد  انہیں لاوارث چھوڑنے کا خطرناک رجحان
بلوچستان کے ہسپتالوں اور زچگی مراکز میں خواتین اکثر درست کوائف  بھی درج  نہیں کراتی ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

لاوارث بچیوں کے معاملے پر حکومتی موقف کیا ہے ؟

اُدھر دوسری جانب بلوچستان کے محکمہ صحت کے ایک سینئر اہلکار اسد اللہ خان کہتے ہیں کہ بچیوں کو لاوارث چھوڑنے کے واقعات کی اطلاعات اکثر نجی سطح پر سامنے آتی ہیں تاہم سرکاری طور پر ایسے اعدوشمار دستیاب نہیں ہیں ۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ’’سرکاری ہسپتالوں کے لیبر رومز میں جوبھی شکایات سامنے آتی ہیں ان پر فوری کارروائی کی جاتی ہے ۔حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچیوں کے کوائف درج کرنے کے لیے ایک باقاعدہ مکینزم موجود ہے ۔اگر کوئی حاملہ خاتون زچگی کے بعد اپنی بچی اپنی مرضی سے کسی خاندان کے سپرد کرتی ہے تو یہ معاملہ سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں بنتا ۔ سرکاری ہسپتالوں میں  بعض اوقات حاملہ خواتین کی جانب سے فراہم کردہ معلومات بھی مصدقہ نہیں ہوتیں ۔‘‘

اسد اللہ خان کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں غیرقانونی لاوارث بچوں کی پیدائش کے واقعات بھی بعض اوقات رپورٹ ہوتے ہیں تاہم  ایسے  بچوں کی ضابطے کے مطابق باقاعدہ رجسٹریشن کی جاتی  ہے۔