1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں کرپشن: درجنوں سابق وزراء، افسروں کے خلاف تحقیقات

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ9 دسمبر 2014

بلوچستان میں انسداد بدعنوانی کے صوبائی ادارے نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق دور کے درجن سے زائد صوبائی وزراء اور کئی اعلیٰ افسران کے خلاف سرکاری محکموں میں اربوں روپے کی مبینہ بدعنوانی کےسلسلے میں تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1E1Ph
سابق صوبائی وزیر علی مدد جھتکتصویر: DW/Abdul Ghani Kakar

حکام کے مطابق ان تحقیقات کے مکمل ہونے کے بعد ذمہ دار افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف قومی احتساب بیورو یا NAB اور محکمہ اینٹی کرپشن کے ذریعے متعلقہ عدالتوں میں بدعنوانی کے باقاعدہ ریفرنسز دائر کیے جائیں گے۔

انسداد بدعنوانی کے صوبائی ادارے ڈی ای اے کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سرکاری محکموں میں سابقہ دور حکومت میں نجی شعبے سے گندم کی خریداری، سرکاری فنڈز کے اجراء اورمختلف ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں اربوں روپے کی کرپشن کی گئی تھی، جس کی چھان بین کے لیے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی جا چکی ہیں۔

تحقیقات کے دوران یہ ٹیمیں سابقہ دور حکومت میں مبینہ کرپشن کے حوالے سے موصول ہونے والی 220 سے زائد شکایات کا بھی جائزہ لیں گی۔ ان شکایات میں صوبائی محکمہ خوراک، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، محکمہ تعلیم، کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی، گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، محکمہ ماہی گیری، بی ڈی اے، محکمہ سماجی بہبود اور بعض دیگر سرکاری محکموں میں ہونے والی مبینہ کرپشن کا احاطہ کیا گیا ہے۔

سابق دور حکومت کے جن صوبائی وزراء کے خلاف بدعنوانی کے سلسلے میں تحقیقات شروع کی گئی ہیں، ان میں اسفند یار خان، علی مدد جھتک، مولانا عبدالواسع، میر صادق علی عمرانی، اسماعیل گجز اور دیگر وزراء شامل ہیں۔
بلوچستان میں کرپشن کی روک تھام کے لیے نیب، ایف آئی اے اور محکمہ اینٹی کرپشن کی ٹیمیں مشترکہ طور پر کام کر رہی ہیں اور رواں سال کے دوران اب تک بدعنوانی کے 42 کیسوں کی انکوائریاں رجسٹر کی جا چکی ہیں جبکہ بدعنوانی کے الزامات میں ایک درجن سے زائد سرکاری اہلکاروں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی بھی عمل میں لائی گئی ہے۔

صوبائی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بقول موجودہ صوبائی حکومت کرپشن کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن پر پختہ یقین رکھتی ہے اور ان تمام لوگوں کا احتساب کرے گی جنہوں نے سرکاری وسائل کو لوٹا یا قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔

Moulana Abdul Wasay
سابق صوبائی وزیر مولانا عبدالواسعتصویر: DW/Abdul Ghani Kakar

کوئٹہ میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے ہمیشہ گڈ گورنینس پر توجہ دی ہے۔ مضبوط اور کرپشن سے پاک جمہوری ادارے دیرپا ترقی کے لیے لازمی ہیں۔ میرے خیال میں اچھی حکومت کے قیام کا ہدف اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک ہم بدعنوانی سے پاک سسٹم مہیا نہیں کریں گے۔ بلوچستان میں اس حوالے سے ہماری عملی جدوجہد کے دور رس نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ حکومت کے تمام وسائل عوام کی امانت ہیں ان کے ضیاع پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘‘

ڈاکٹر مالک بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں انسداد بدعنوانی کے لیے حکومت تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے اور متعلقہ اداروں کے فعال ہونے سے کرپشن میں خاطر خوا کمی ہوئی ہے۔

’’بلوچستان کی ترقی میں دیگر رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ ماضی میں ہونے والی بدعنوانی اور اقربا پروری کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ جن لوگوں نے سابقہ دور میں عوام کا پیسہ لوٹا، انہیں اب اس کاحساب دینا ہو گا۔ صوبائی حکومت ہر سطح پر شفافیت اور میرٹ کو فروغ دینے کی پابند ہے اور اس ضمن میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔‘‘

اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ بلوچستان میں اینٹی کرپشن ہاٹ لائن اور ایٹی کرپشن ویب سائٹ کا بھی آغاز کر رہی ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات عبدالرحیم زیارتوال کے بقول حکومت انسداد بدعنوانی کے ادارے کو جدید دور کے تمام تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا چاہتی ہے تا کہ اس کو ہر زاویے سے فعال بنایا جا سکے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’بد عنوانی کی روک تھام ہماری ترجیحات میں شامل ہے اور صوبائی حکومت یہ کوشش کر رہی ہے کہ ان تمام عوامی شکایات کا ازالہ کیا جائے جو قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کے حوالے سے اسے موصول ہوتی ہیں۔ ہمیں اس تاثر کو ختم کرنا ہو گا کہ سرکاری اداروں میں کرپشن عام ہے اور یہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جب تک بد عنوانی ختم نہیں ہو گی، بلوچستان میں پائیدار ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔‘‘

واضح رہے کہ بلوچستان میں قومی احتساب بیورو اب تک احتساب عدالتوں میں 235 ریفرنسز دائر کر چکی ہے، جن میں 165 کیسوں کو نمٹایا جا چکا ہے اور 132 ملزمان کو بدعنوانی ثابت ہونے پر سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ بدعنوانی کے70 ریفرنس تاحال عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔