بلوچستان میں کینسر کے مریض جائیں تو کہاں جائیں
24 اکتوبر 2022نومبر 2020ء میں نصرت بی بی کی والدہ کا انتقال ہوا۔ وہ فاتحہ خوانی میں مصروف تھیں کہ جب انہیں سینے میں کچھ چبھن اور پھر درد محسوس ہوا۔ درد سینے سے اٹھ کر بغل تک جا پہنچتا۔
جب انہوں نے کراچی میں اپنا معائنہ کروانے کا فیصلہ کیا تو لیڈی ڈاکٹر نے یہ کہہ کر گھر واپس بھیج دیا کہ یہ عام سا درد ہے۔ نصرت بی بی کراچی سے اپنے گھر کوئٹہ چلی آئیں، جہاں انہوں نے امراض قلب کے وارڈ سے انجیوگرافی کروائی۔
نصرت بی بی کے بیٹے جو ڈاکٹر ہیں، انہیں والدہ کی بیماری کو دیکھ کر شک ہو کہ کہیں والدہ کو چھاتی کا کینسر نہ ہو۔ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر نے معائنے کے بعد کینسر کے چند ٹیسٹ کروانے کا کہا اور پھر پتہ چلا کہ نصرت بی بی واقعی چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہیں۔
کم عمری میں شادی ایک وجہ
55 سالہ نصرت بی بی کی 14 سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی۔ وہ پانچ بچوں کی ماں ہیں۔ ماہرین صحت چھاتی کے کینسر کی ایک وجہ کم عمری کی شادی کو بھی قرار دیتے ہیں۔ نصرت بی بی کے گھر والوں نے ان کا فوری طور پر آپریشن کروانے فیصلہ کیا۔ اور آخر کار قریب 4 گھنٹے چلنے والے آپریشن کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔
صوبے کا واحد سرکاری کینسر وارڈ
کوئٹہ کے بولان میڈیکل کمپلیکس میں 40 بستروں پر مشتمل صوبے کا واحد کینسر وارڈ ہے۔ اس وارڈ میں ہماری ملاقات 55 سالہ نصرت بی بی سے ہوئی جو آپریشن کے بعد فالو اپ چیک اپ کے لیے ہسپتال آئی تھیں۔
وہ بتاتی ہیں، ''میں خوش قسمت ہوں کہ میرے مرض کی تشخیص جلد ہوئی۔ بد قسمتی سے میری دو نندیں کینسر کی تشخیص دیر سے ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔‘‘
نصرت بی بی کو ہر 21 روز بعد کینسر کا مقابلہ کرنے والا انجیکشن لگتا ہے۔ نصرت بی بی نے 5 انجیکشن اپنے پیسوں سے لگوائے ہیں۔ بقایا انجیکشنز وہ صوبائی حکومت کی جانب سے اس موذی مرض کے لیے مختص کردہ فنڈز سے لگوا رہی ہیں۔ اس انجیکشن کہ پاکستان میں قیمت پچاس ہزار ہے۔ کینسر کے مریض کو 17 بار یہ انجیکشن لگانے پڑتے ہیں۔
علاج کی ناکافی سہولیات
کینسر یونٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر زاہد محمود گزشتہ 25 سالوں سے کینسر کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 40 بستروں پر مشتمل اس یونٹ میں مریضوں کا اتنا رش ہوتا ہے کہ اکثر مریضوں کا علاج نہیں ہو پاتا، ''مشینوں کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو ریڈی ایشن کے لیے سینار ہسپتال منتقل کرنا پڑتا ہے۔ ادویات نہ ہونے اور آگاہی کی کمی کی وجہ سے اکثر مریض ہسپتال کا اس وقت رخ کرتے ہیں، جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر زاہد محمود کے مطابق چھاتی کے کینسر کو بہت سے لوگ معیوب سمجھتے ہیں، ''اس مرض کو چھپانے کی وجہ سے ہمارے پاس اکثر مریض تب آتے ہیں کہ جب کینسر پورے جسم میں پھیل چکا یعنی مرض تیسرے یا آخری سٹیج پر ہوتا ہے۔‘‘
کوئی ہسپتال نہیں
بلوچستان پاکستان کا واحد صوبہ ہے، جہاں کینسر کے علاج کے لیے صوبائی سطح پر باقاعدہ ایک بھی ہسپتال قائم نہیں۔ کوئٹہ کے بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں 40 بستروں پر مشتمل کینسر یونٹ تو ہے لیکن آلات کی کمی کے باعث یہاں آئے افراد کو کینسر کی تشخیص کے لیے نجی لیبارٹریز یا دیگر صوبوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ کوئٹہ میں کینسر کے لیے وفاقی سطح پر اٹامک انرجی کی جانب سے سینار ہسپتال بھی قائم ہے لیکن یہاں بھی کینسر کی تشخیص کرنے والی (پی ٹی سکین) جیسی اہم مشین موجود نہیں۔
ڈاکٹر زاہد محمود نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ مرض کی تشخیص سے لے کر علاج تک اوسطاﹰ 30 لاکھ کا خرچ آتا ہے، ''یونٹ کو ملنے والے سالانہ ایک کروڑ کی رقم سے 4 مریضوں کا بھی علاج نہیں ہو پاتا۔ ہمارے پاس ایسے بھی مریض آتے ہیں، جن کے پاس پیسے نہ ہونے کی وجہ سے علاج ادھورا چھوڑنا پڑتا ہے۔‘‘
محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ڈاکٹر نور محمد قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کینسر کے یونٹ کے لیے ادویات کی مد میں ایک کروڑ کا فنڈ ناکافی ہے، جس میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔‘‘
اعداد و شمار بھی دستیاب نہیں
صوبائی محکمہ صحت کے پاس کینسر سے متعلق مجموعی اعداد وشمار موجود نہیں۔ بولان میڈیکل کمپلیلس (بی ایم سی) کینسر یونٹ سے حاصل کردہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال اس ہسپتال میں 3 ہزار جبکہ سینار کینسر ہسپتال میں چھاتی کے کینسر کے 3 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ رواں برس کے دوران ابھی تک بی ایم سی یونٹ میں یہ تعداد 15 سو کے لگ بھگ ہے۔
محکمہ صحت کے پاس کینسر کا ڈیٹا نہ ہونے کے سوال کے جواب میں قاضی نے بتایا، ''ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنے پر کام جاری ہے، جس کے ذریعے بلوچستان بھر سے کینسر کے مریضوں مکمل ڈیٹا جمع کیا جا سکے۔‘‘
4 فروری 2020ء کو صوبائی حکومت نے 160 بستروں مشتمل کوئٹہ کے نواحی علاقے مستونگ روڈ پر کینسر کے ہسپتال کا سنگ بنیاد تو رکھا۔ لیکن ڈھائی سال گزرنے کے باوجود ہسپتال کی عمارت تاحال زیر تعمیر ہے۔ حاصل کردہ ریکارڈ کے مطابق کینسر ہسپتال منصوبے کی کل لاگت ایک ارب 67کروڑ ہے جبکہ منصوبے کے لیے اب تک تین مالی سالوں میں صرف 60 کروڑ 80 لاکھ روپے جاری کیے گئے ہیں۔محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نور محمد قاضی نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ کینسر ہسپتال کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہے، ''ہم نے متعلقہ حکام کو لکھ دیا ہے کہ ہسپتال کی تعمیر کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔‘‘
سینار ہسپتال کے ڈاکٹر فیروز اچکزئی نے مریضوں میں آگاہی نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بلوچستان میں چھاتی کے کینسر کے اکثر مریضوں میں مرض کی تشخیص آخری سٹیج پہ ہوتی ہے، جہاں مریض کے بچنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔‘‘سینار ہسپتال میں سالانہ 18 ہزار فالو اپ چیک اپس چل رہے ہوتے ہیں۔
کینسر کی علامات
وزن کا کم ہونا، سینے میں گلٹیوں کا بننا، مسلسل بخار، منہ سے یا پاخانہ میں خون آنا وہ علامات ہیں جن کے ظاہر ہوتے ہی کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کرناچاہیے۔کینسر کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر فیروز بتاتے ہیں کہ کم عمری کی شادی، ماں کا بچے کو دودھ نہ پھلانا، کسی چوٹ کا لگنا، حمل ٹھہرانے والی ادویات کا استعمال اور خاندان کے کسی فرد میں کینسر کاہونا چھاتی کے کینسر کا سبب ہو سکتے ہیں، ''آگاہی کی کمی اور بروقت تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مریض انتقال کر جاتے ہیں۔"
آگاہی کا نہ ہونا
ایسی ہی ایک کہانی امرت مراد کی بھی ہے، جو جامعہ بلوچستان میں اردو کے شعبہ سے ایم فل کر رہی تھیں۔ امرت مراد کینسر کے علامات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے شادی کے صرف 3 ماہ بعد جنوری 2016ء میں چھاتی کے کینسر کے باعث انتقال کر گئی تھیں۔
ڈی ڈبلیو نے جامعہ بلوچستان کے مختلف شعبہ جات میں زیر تعلیم طالبات سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا انہیں چھاتی کے کینسر کی علامات کا علم ہے؟ سوال کے جواب 10 میں سے 4 طالبات نے بتایا کہ انہیں علامات کا پتا نہیں۔ کم یا غیر تعلیم یافتہ خواتین میں چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی اور بھی کم ہے۔
کینسر کے مریضوں کی مدد سمیت آگاہی مہم چلانے والے یونس زہری بتاتے ہیں، ''مختلف موذی امراض کے لیے 6 ارب کا بلوچستان عوامی انڈومنٹ فنڈ نہ صرف کم ہے بلکہ مریضوں کو ایک پیچیدہ طویل دفتری کارروائی سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اس عمل میں کم از کم ایک سے دو ماہ کا عرصہ لگ ہی جاتا ہے۔ کینسر کے مریض کے لیے ایک ایک دن قیمتی ہوتا ہے۔‘‘
یونس زہری نے کہا کہ حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے بلوچستان میں ہونے والی آگاہی مہم صرف کوئٹہ کے بڑے نجی ہوٹلوں یا یہاں کے ہسپتالوں کے اندر واک یا ریلی تک محدود ہے۔ اس طریقہ سے ایک عام گھریلوں خاتون کو آگاہی نہیں ملتی، ''آگاہی مہم ضلع، تحصیل اور یونین کونسلوں تک لے جانے کی ضرورت ہے۔‘‘
آپریشن کے بعد نصرت بی بی صحت یاب ہو رہی ہیں۔ ان کے شوہر جہانداد نے بتایا کہ بیس سال قبل چھاتی کے کینسر کی وجہ سے ان کی ایک بہن کا جبکہ ایک اور بہن کا تین سال قبل یوٹیریس کے کینسر کے باعث انتقال ہو چکا ہے۔