بلوچستان کے ضلع تربت میں دہشت گردانہ حملہ، چھ مزدور ہلاک
14 اکتوبر 2023بلوچستان کے شورش زدہ ضلعےتربت میں آج ہفتے کے روز ہونے والے ایک دہشت گردانہ حملے میں چھ مزدور ہلاک جبکہ دیگر دو افراد شدید زخمی ہو گئے۔ متاثرہ افراد کچھ عرصہ قبل تعمیراتی کام کے لیے پنجاب سے تربت آئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری اب تک کسی بھی فرد یا تنظیم نے قبول نہیں کی ہے ۔
علیحدگی پسند بلوچ کالعدم تنظیموں نے گزشتہ ہفتے صوبے میں میں اپنے اہداف پر حملے تیز کرنے کی دھمکی دی تھی۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیموں کے حملوں میں غیرمعمولی تیز ی آئی ہے۔ ان حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت کئی اہم حکومتی شخصیات بھی شامل ہیں ۔
پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے پروجیکٹ منیجر شبر مرزا بھی گزشتہ ہفتے کوئٹہ کے قریب ڈیگاری کے علاقے میں ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری ایک کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم نے قبول کی تھی۔
تربت میں تعینات ایک سینئیر سکیورٹی اہلکار مزمل احمد نے بتایا ہے کہ ہفتے کے روز ان مزدوروں پر سیٹلائٹ ٹاون کے علاقے میں عسکریت پسندوں نےاس وقت حملہ کیا جب وہ ایک مکان میں موجود تھے ۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''تربت میں بد امنی میں ملوث تنظیموں کے روپوش ارکان کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں کافی عرصے سے جاری ہیں۔ ان کارروائیوں کے ردعمل میں امن دشمن عناصر ماضی میں بھی اس نوعیت کے کئی حملے کرچکے ہیں۔‘‘
ہلاک ہونے والےافراد کی لاشیں ورثاءکے حوالے کردی گئی ہیں جبکہ زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعےکوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔ مزمل احمد کا کہنا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات جاری ہیں اور غفلت کا مظاہرہ کرنے پر وزیر اعلیٰ نے ایس پی تربت کو فوری طور پرمعطل کرنے کا حکم دیا ہے ۔
انہوں نے مذید کہا،''شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقیناﹰحکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ قیام امن کی بحالی کے لیے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ تربت اور اس سے ملحقہ دیگر علاقوں میں معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیلنے والے عناصرکو جلد انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا ئے گا۔ تربت انتظامیہ تحقیقات کے سلسلے میں مقامی لوگوں سے بھی رابطے میں ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا حملہ آورمقامی آبادی کی آڑ میں تو اس علاقے میں روپوش نہیں تھے۔"
انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر عوامی ردعمل
چند روز قبل بعض بلوچ قوم پرست تنظیموں نے ملکی سکیورٹی فورسز پر ڈیرہ بگٹی اور دیگر بلوچ اکثریتی علاقوں میں بلوچ سیاسی کارکنوں کو ماورائے قانون گرفتار کرنے کا الزام عائد کیا تھا ۔ مبینہ ریاستی کارروائیوں کے خلاف صوبے کے مختلف علاقوں میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔
احتجاجی مظاہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اوربلوچ سیاسی کارکنوں کو مبینہ طور پرقتل کر کے ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینکی جا رہی ہیں۔
رواں ہفتے کوئٹہ میں نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑکی زیر صدارت ہونے والے ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ریاست مخالف تنظیموں کے خلاف اپریشن مذید تیز کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں تھیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ عسکریت پسند تنظیموں کے حملوں میں تیزی ریاستی اداروں کی حالیہ کارروائیوں کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔
بلوچ کالعدم تنظیمیں کیا چاہتی ہیں ؟
اسلام آباد میں مقیم سکیورٹی امور کے تجزیہ کار میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کہتے ہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریاست مخالف تنظیمیں حکومتی رٹ کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''بلوچستان کے حالات ملک کے دیگر حصوں سے یکسر مختلف ہیں۔ یہاں بدامنی کی ایک نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں۔ اس وقت صوبے میں جو غیرملکی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، اس پر اٹھنے والے اعتراضات کو بھی زیرغور لانے کی ضرورت ہے۔ بدامنی میں ملوث تنظیمیں بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے جو موقف پیش کررہی ہیں، انہیں زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
عمر فاروق کا کہنا تھاکہ تربت میں نشانہ بننے والے مزدور ایک نجی تعمیراتی کمپنی کے لیے کام کر رہے تھے۔ ایسے افراد کو کئی بار صوبے میں کام نہ کرنے کی دھمکیاں بھی دی جا چکی ہیں۔
ان کے بقول،''عسکریت پسند تنظیمیں ایسے اہداف کو نشانہ بنا رہی ہیں، جن سے حکومتی رٹ کی کمزروی ظاہر ہوتی ہو۔ بلوچستان میں غیرمقامی افراد کے خلاف چند سال قبل بھی حملوں کی ایک لہر آئی تھی تاہم بعد میں ان میں کمی آ گئی تھی۔ اس وقت تسلسل کے ساتھ آبادکاروں پر صوبے میں جو حملے کیے جا رہے ہیں، ان کی کڑیاں بھی ماضی میں تشدد کی اسی لہر سے جوڑی جارہی ہیں۔‘‘
ان کے بقول، ''ریاست مخالف عناصر یہ چاہتے ہیں کہ صوبے میں ان کےمفادات کے برعکس سرمایہ کاری نہ ہو۔‘‘بعض مبصرین کے خیال میں بلوچستان میں بگڑتی ہوئی قیام امن کی صورتحال کے کئی ایسے محرکات بھی ہیں، جنہیں ملک کے مقتدر حلقے ہمیشہ نظرانداز کرتے رہے ہیں ۔
تشدد کی نئی لہراورمتنازعہ حکومتی پالیسیاں
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق سینٹر اور قبائلی رہنماء نوابزادہ حاجی لشکر ی رئیسانی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں حالات کی بہتری حکومتی ترجیہات کا کبھی حصہ نہیں رہی ہے اور یہ کہ اسی لیے حالات دن بدن بد تر ہوتے جا رہے ہیں ۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،"ملک کے سب سے اہم اور اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل صوبے کے ساتھ حکمرانوں کا رویہ اور سلوک بہت مایوس کن ہے۔ حکومت میں شامل لوگ کہتے ہیں بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے لیکن انہیں یہاں کے حال سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘
نوابزادہ لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حقیقی مسائل پر پارلیمان میں کبھی بات نہیں ہوتی اور مقتدر قوتوں کی ایماء پر پارلیمنٹ تک پہنچنے والے لوگ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی تحقیقات کے لیے نگران وزیراعلیٰ علی مردان ڈومکی کی ہدایت پر آج ہفتے کے روز ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے افسران شامل ہیں۔ یہ کمیٹی اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد ایک مفصل رپورٹ صوبائی حکومت کو پیش کر ے گی۔