بلوچستان میں اشیائے خورونوش ناپید ہوتی جا رہی ہیں
18 ستمبر 2022حالیہ سیلاب سے صوبہ بلوچستان میں دو لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ بارشوں سے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کے باعث صوبے کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی کئی سڑکیں تاحال بند ہیں۔ گندم کی شدید قلت کے باعث صوبے کی چالیس میں سے 25 فلور ملز بند ہو چکی ہیں، جو فلور ملز کھلی ہیں ان کے مالکان نے بھی گندم کی عدم دستیابی پر احتجاج کرتے ہوئے ملز کی بندش کا اعلان کیا ہے۔
حکومت سنجیدہ نہیں
فلور ملز ایسوسی ایشن پاکستان کے مقامی رہنماء شہریار خان کہتے ہیں کہ بلوچستان کو اس وقت شدید بحرانی کیفیت کا سامنا ہے مگر حکومت اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے کوئی سنجیدگی نہیں دکھا رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "دیکھیں اس تمام صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ حکومت نے آٹے کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے روز اول سے کوئی حکمت عملی ہی مرتب نہیں کی ہے۔ فلور ملز کے پاس گندم کا کوٹہ ختم ہو چکا ہے۔ گندم نہ ہونے کی وجہ سے فلور ملز سے اوپن مارکیٹ کو آٹا فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔ سو کلو گرام آٹے کی ایک بوری کی قیمت 13 ہزار روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔"
خریداری میں تاخیر
شہریار خان کا مزید کہنا تھا کے آٹے کے بڑھتے ہوئے اس بحران کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ محکمہ خوراک نے اس سال گندم کی خریداری وقت پر نہیں کی تھی، ''محکمہ خوراک بلوچستان کی اوپن مارکیٹ سے گندم کی خریداری کا سالانہ ہدف دس لاکھ بوری گندم ہے۔ رواں سال حکومت سطح پر اوپن مارکیٹ سے صرف 2 لاکھ 95 ہزار بوری گندم کی خریداری کی گئی تھی۔ دوسری طرف سیلاب کی وجہ سے بھی سرکاری اور نجی گوداموں میں پڑی ہوئی گندم بڑے پیمانے پر خراب ہوئی ہے۔ یہ گندم گوداموں میں محفوظ مقامات کے بجائے کھلے آسمان تلے رکھی گئی تھی جو کہ سیلابی ریلوں میں بہہ گئی۔"
قحط سالی کا خطرہ
بلوچستان میں اسی فیصد سے زائد لوگوں کا واحد ذریعہ معاش زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ بلوچستان میں کسانوں کی نمائندہ تنظیم، زمیندار ایکشن کمیٹی کے صوبائی رہنماء امین اللہ بازئی کہتے ہیں کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے صوبے کے بڑے حصے کو شدید قحط نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار دہائیوں میں پہلی باربلوچستان اتنے بڑے پیمانے پر سیلاب سے متاثر ہوا ہے، ''حالیہ غیر معمولی بارشوں سے مقامی لوگوں کی اربوں روپے مالیت کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ صوبے کا زرعی شعبہ ضرورت کے مطابق غذائی اجناس پیدا نہیں کر پا رہا ہے۔ مقامی لوگ شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ حکومتی سطح پر متاثرہ لوگوں کو ملنے والی امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ متاثرہ اضلاع میں رابطہ سڑکوں کی بندش کی وجہ سے دکانوں میں دستیاب بنیادی ضرورت کی اشیائے خورونوش ختم ہوتی جا رہی ہیں۔"
نقصان اندازوں سے کہیں زیادہ
امین اللہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں زرعی شعبے کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ حکومتی اعدادوشمار سے کئی گناہ زیادہ ہے، ''سیلاب سے متاثرہ، لسبیلہ، نوشکی، پشین، جھل مگسی، نصیر آباد ڈویژن اور دیگر علاقوں میں لاکھوں لوگ متاثرہ ہوئے ہیں۔ کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ لوگوں کے پاس اشیائے خورونوش تو درکنار، کھانا پکانے کے لیے برتن تک دستیاب نہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں حکومتی سطح پر متاثرہ علاقوں میں غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ نہیں اٹھائے جا رہے۔"
راشن کی تقسیم میں امتیازی رویے کی شکایت
کوئٹہ کے قریب واقع دیہات کلی عطاء محمد میں مقیم 45 سالہ حاجرہ بی بی کہتی ہیں کہ راشن کی تقسیم کے عمل میں حکومتی سطح پر امتیازی رویہ اپنایا گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "میں ایک بیوہ ہوں دوجوان بیٹیوں اور ایک کمسن بیٹے کے ہمراہ اس دیہات میں مقیم ہوں۔ حالیہ سیلاب نے ہمیں بے گھر کر دیا ہے۔ اس وقت ہم ایک خیمے میں مجبوری کے باعث زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بہت کم لوگوں کو یہاں راشن دیا گیا ہے۔ ہمارا سب کچھ سیلاب کی نظر ہو گیا۔ دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں کوئی امداد دے تو کچھ گزارا ہوجاتا ہے۔ حکومتی ٹیمیں یہاں آتی تو ہیں لیکن ضرورت کے مطابق امدادفراہم نہیں کی جا رہی ہے۔"
اشیائے خورونوش ضروریات کے لیے ناکافی
چیمبر اف کامرس بلوچستان کے مقامی رہنماء سہیل یوسف کہتے ہیں کہ صوبے میں اس وقت دستیاب بنیادی ضرورت کی اشیائے خورونوش عوامی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان میں کئی علاقے پہلے ہی قحط کا شکار تھے۔ حالیہ سیلاب سے صوبے کے 34 میں سے 33 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ غذائی قلت کا مسئلہ بہت تیزی کے ساتھ صوبے کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اوپن مارکیٹ سے اشیائے خورونوش کی اب بلیک میں فروخت ہونے کی بھی شکایات سامنے آئی ہیں۔ تاجروں کو ضرورت کے مطابق مطلوبہ اجناس مارکیٹ سے نہیں مل رہی ہیں۔ دیگر صوبوں سے گندم اور دیگر اشیاء کی درآمد پر عائد پابندی بھی تاحال ختم نہیں کی گئی ہے۔"
حکومت سے درخواست
سہیل یوسف نے مزید کہا، ''بلوچستان میں اس وقت ٹماٹر، آلو، پیاز اور دیگر سبزیاں سیلاب کی وجہ سے ناپید ہو چکی ہیں۔ ہم نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ ہمیں ایران سے غذائی اجناس کی درآمد کی اجازت اور ٹیکسز کی مد میں ریلیف دیا جائے۔ عوامی ضروریات کے مطابق جب تک ان اشیاء کی دستیابی ممکن نہیں ہوتی قیمتوں میں استحکام ممکن نہیں۔"
واضح رہے کہبلوچستان میں سیلابی ریلوں سے بڑے پیمانے پر سولر پلیٹس، ٹیوب ویلز اور نجی بورنگز کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ریلیف کے کاموں میں مصروف غیرسرکاری تنظیموں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں ۔
دوسری جانب قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے، پی ڈی ایم نے دعویٰ کیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں جاری فلڈ ریلیف آپریشن کے لیے امدادی فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت نے بین الاقوامی دفاعی اداروں سے بھی ہنگامی صورتحال میں مدد کی اپیل کی ہے۔