1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ ديش: نامعلوم افراد کا حملہ، نو صحافی زخمی

Maqbool Malik29 مئی 2012

پير کی شام بنگلہ ديش کے ايک ميڈيا ادارے کے دفتر پر نامعلوم مسلح افراد نے بڑے بڑے چھروں سے حملہ کر ديا جس کے نتيجے ميں نو صحافی زخی ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/153n3
تصویر: DW

خبر رساں ادارے اے ايف پی کے مطابق ڈھاکہ ميں Bdnews24.com کے دفتر پر گزشتہ روز مسلح افراد نے ’ميچٹس‘ يا چھروں سے حملہ کر ديا جس کے نتيجے ميں ادارے کے نو ملازمين زخمی ہو گئے۔ اس سلسلے ميں بنگلہ ديشی دارالحکومت ڈھاکہ کی پوليس کے ڈپٹی کمشنر لطف الکبير نے خبر رساں ادارے اے ايف پی کو بتايا، ’آٹھ افراد نے پيرکی شام Bdnews24.com کے دفتر پر حملہ کيا اور پھر فرار ہو گئے‘۔ ڈپٹی کمشنر نے مزيد بتايا کہ تين صحافيوں کے زخموں کی شدت زيادہ تھی، جنہيں ہسپتال منتقل کر ديا گيا تھا اور اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ لطف الکبير کے بقول اس حملے کا مقصد ابھی تک واضح نہيں ہو پايا ہے۔

واقعے کے بعد Bdnews24.com کے نيوز ايڈيٹر غازی نصيرالدين احمد نے خبر ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ يہ بات ابھی واضح نہيں ہے کہ آيا يہ حملہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت کيا گيا يا نہيں۔ انہوں نے مزيد کہا، ’ہم حیران ہیں۔ ہم حملہ آوروں کی فوری گرفتاری اور عدالتی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہيں‘۔

بنگلہ ديشی دارالحکومت ڈھاکہ ميں گزشتہ روز رونما ہونے والے اس واقعے کے بعد وزیر داخلہ صحارا خاتون نے فوری طور پر حملے کی تحقيقات کے احکامات جاری کر ديے ہيں۔ انہوں نے يہ احکامات ڈھاکہ کے علاقے موہک ہالی ميں واقع Bdnews24.com کے دفتر کے دورے کے بعد جاری کيے۔

گزشتہ ہفتے بنگلہ ديش کے ايک اخبار کے تين فوٹو گرافروں کو پوليس نے تشدد کا نشانہ بنايا
گزشتہ ہفتے بنگلہ ديش کے ايک اخبار کے تين فوٹو گرافروں کو پوليس نے تشدد کا نشانہ بناياتصویر: DW

واضح رہےکہ یہ حملہ بنگلہ ديش ميں صحافی برادری پر ہونے والے پر تشدد واقعات کے سلسلےکا تازہ ترين واقعہ ہے۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے بنگلہ ديش کے ايک نامور اخبار پروتھو آلو کے تين فوٹو گرافروں کو پوليس اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنايا تھا۔ جبکہ اسی طرح رواں سال فروری ميں ڈی ڈبلیو بنگالی سروس کے سابقہ رکن اور بنگلہ دیش کے ایک نجی ٹی وی کے لیے کام کرنے والے صحافی غلام مصطفیٰ سرور کو ان کی صحافی بیگم مہرون رونی سمیت انہی کے فلیٹ میں قتل کردیا گیا تھا۔ اے ايف پی کے مطابق اس قتل کا مقصد اب تک واضح نہيں ہو سکا ہے اور نہ ہی اس سلسلے ميں کوئی گرفتاری عمل ميں آئی ہے۔

as/ai/AFP