بنگلہ دیش میں سیلاب: سو افراد ہلاک، ڈھائی لاکھ متاثرین
28 جون 2012ڈھاکہ سے ملنے والی رپورٹوں میں خبر ایجنسی روئٹرز نے سرکاری اہلکاروں اور پولیس حکام کا حوالہ دیتے ہوئے آج جمعرات کے روز بتایا کہ ان سو سے زائد شہریوں میں سے زیادہ تر منگل اور بدھ کی درمیانی شب مارے گئے۔ بیشتر ہلاکتوں کا سبب اچانک آنے والے سیلابی پانی کے ریلے، مٹی کے تودے پھسلنے کے واقعات، رہائشی مکانات کا منہدم ہو جانا اور بجلی گرنے کے واقعات بتائے گئے ہیں۔ حکام نے بتایا کہ کم از کم ایک چوتھائی ملین متاثرین میں سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان چاروں طرف سے پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان متاثرین کی سلامتی اور انہیں جلد از جلد ہنگامی امداد کی فراہمی کے لیے ملکی فوج کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکار اور فائر بریگیڈ کے کارکن بھی اپنی پوری کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بہت گنجان آبادی لیکن نشیبی علاقوں والے جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں گزشتہ پانچ روز کے دوران مسلسل بارشوں اور اچانک سیلابوں کی وجہ سے کافی تباہی پھیلی ہے۔ دارالحکومت ڈھاکہ میں محکمہء موسمیات کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اگلے چند روز کے دوران ملک میں مزید بارشوں کا قوی امکان ہے۔
روئٹرز نے سیلابی تباہ کاریوں کے بارے میں لکھا ہے کہ زیر آب آ جانے والے علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں رہائشی مکانات منہدم ہو چکے ہیں۔ اسی دوران امدادی کارکنوں نے بہت سے متاثرہ خاندانوں کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا ہے جبکہ مزید علاقوں سے سیلابی متاثرین کو اپنے اپنے رہائشی علاقے خالی کر دینے کے لیے بھی کہہ دیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں سیلابوں اور مٹی کے تودے پھسلنے کے واقعات کے نتیجے میں جس ایک جگہ پر کافی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں، وہ جنوبی بندرگاہی شہر چٹاگانگ اور اس کا نواحی علاقہ تھا۔ وہاں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ نے کم از کم 23 افراد کی جان لے لی۔ اس کے علاوہ کم از کم 36 افراد بندربن میں بھی مارے گئے۔ بنگلہ دیش میں بندربن کا علاقہ چٹاگانگ کا پہاڑی علاقہ کہلاتا ہے۔ چٹاگانگ کے ڈپٹی کمشنر فیض احمد نے بتایا کہ خدشہ ہے کہ اس خطے میں بہت سے افراد تاحال اپنے ایسے گھروں میں پھنسے ہوئے ہیں جو لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے متاثرین کی تلاش اور ریسکیو کا کام تیز رفتاری سے جاری ہے۔
دیگر ذرائع نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اچانک آنے والے سیلاب کوکس بازار کے ساحلی ضلع میں بھی قریب 38 افراد کی ہلاکت کا سبب بنے۔ بنگلہ دیش کا یہ علاقہ اس ملک کی میانمار کے ساتھ قومی سرحد کے قریب واقع ہے۔ ڈھاکہ میں سرکاری اہلکاروں کے بقول سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث 200 کے قریب شہری زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ تقریباﹰ سو افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔
کاکس بازار کے ضلعی کمشنر نے روئٹرز کو بتایا کہ اس علاقے میں شہریوں کو کئی برسوں بعد اتنی شدید اور تباہ کن بارشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آفتوں سے نمٹنے کے قومی ادارے ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے ایک اہلکار کے بقول پورے ملک میں سیلابی متاثرین کی موجودہ تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب ہے اور ان میں سے اکثر ہر طرف سے پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ امدادی کارکن ان متاثرین کو اشیائے خوراک، پینے کا صاف پانی اور ادویات پہنچانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ij / ah / Reuters