بھارت: سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کو تیسری جنس تسلیم کر لیا
15 اپریل 2014انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ان لاکھوں لوگوں کو شناخت ملے گی، جنہیں قدامت پسند بھارتی معاشرے میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
سپریم کورٹ نے وفاقی اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غریب عوام کے لئے شروع کیے گئے فلاح و بہبود کے تمام پروگراموں میں خواجہ سراؤں کو شامل کیا جائے اور انہیں مساوی حقوق دیے جائیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق اسی طرح صحت، تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں پائے جانے والے سماجی اور اقتصادی چیلنجز سے نمٹا جا سکتا ہے۔
آج کے فیصلے سے پہلے تک سرکاری دستاویزات میں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے تمام خواجہ سراؤں کو اپنی جنس یا تو مرد یا پھر عورت کے طور پر ظاہر کرنا پڑتی تھی۔ سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایس رادھا کرشن کا حکم سناتے ہوئے کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کو تیسری جنس کا درجہ دینا معاشرتی یا طبی معاملہ نہیں بلکہ اس کا تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہے۔ عدالت کے مطابق ہر انسان کو مرد، عورت یا پھر اپنی شناخت تیسری جنس کے طور پر ظاہر کرنے کا حق حاصل ہے، ’’آج کے بعد تمام دستاویزات میں تیسری جنس کا خانہ رکھا جائے گا۔‘‘
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم عمل لکشمی ترپاٹھی کا کہنا تھا، ’’آج کا یہ فیصلہ ہم سب کے لیے بہت بڑی مدد ہے۔ آج مجھے ایک بھارتی ہونے پر فخر ہے۔‘‘
عدالت کے حکم نامے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ آئین کا مقصد بھارتی شہریوں کو ذات، مذہب یا جنس سے قطع نظر مساوی مواقع فراہم کرنا ہے۔ حال ہی میں بھارتی الیکشن کمیشن نے ووٹر رجسٹریشن فارم میں پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں کے لیے مرد یا عورت کی بجائے ’دوسری جنس‘ کا خانہ متعارف کروایا تھا۔ بھارت میں جاری پارلیمانی انتخابات میں تقریبا 28 ہزار افراد نے ’دوسری جنس‘ کے خانے میں نشان لگایا ہے۔
بھارت میں خواجہ سراؤں یا ہیجڑوں کی مجموعی آبادی سے متعلق کوئی سرکاری یا قابل اعتماد غیر سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تاہم اندازوں کے مطابق بھارت میں خواجہ سراؤں کی مجموعی تعداد سات لاکھ اور ایک ملین کے درمیان ہے۔ ان کی اپنی ایک ملکی تنظیم بھی ہے، جس کا نام خواجہ سراؤں کی آل انڈیا ویلفیئر ایسوسی ایشن ہے۔
دیگر جنوبی ایشیائی معاشروں کی طرح بھارت میں بھی خواجہ سرا معاشرے کے مرکزی دھارے سے بہت دور ہیں۔ وہ زیادہ تر شادیوں اور بچوں کی پیدائش کے موقع پر ناچ گانے سے ملنے والی رقم پر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ بہت سے واقعات میں وہ بھیک مانگنے یا پھر جسم فروشی پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔