بھارت میں بنگلہ دیش کے مشن پر حملہ، نئی دہلی کا اظہار افسوس
3 دسمبر 2024بھارتی وزارت خارجہ نے شمال مشرقی سرحدی صوبے تریپورہ کی راجدھانی اگرتلہ میں پیش آنے والے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ بھارت کی حکومت ملک میں بنگلہ دیش کے مشنوں پر حفاظتی انتظامات بڑھانے کے لیے کارروائی کر رہی ہے۔
وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین کے ایک گروپ کی طرف سے اگرتلہ میں بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ ہائی کمیشن کی سکیورٹی کی خلاف ورزی کا یہ واقعہ "انتہائی افسوسناک" ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے سفارتی احاطے کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لئے بھارت کے عزم کا اعادہ کیا اور ملک میں واقع بنگلہ دیش کے سفارتی مشنوں کی سکیورٹی میں اضافہ کی یقین دہانی کرائی۔
کیا ہوا تھا؟
چٹاگانگ میں 25 نومبر کو ہندوؤں کے ایک فرقے اسکان کے معروف لیڈر چنموئے کرشنا داس کی گرفتاری پر بڑھتے ہوئے تناؤ کے پس منظر میں، پیر (2 دسمبر) کو ایک ہندو شدت پسند تنظیم 'ہندو سنگھرش سمیتی' کے مظاہرین کا ایک بڑا ہجوم اگرتلہ میں بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ ہائی کمیشن کے احاطے میں زبردستی داخل ہو گیا۔ اس نے بنگلہ دیش کے قومی پرچم کو نیچے اتار دیا، توڑ پھوڑ کی اور وہاں سے باہر نکالے جانے سے پہلے متعدد اشیاء کو نقصان پہنچایا۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ "اگرتلہ میں اسسٹنٹ ہائی کمیشن پر پرتشدد حملے، مشن کے احاطے میں توڑ پھوڑ اور بنگلہ دیش کے پرچم کی بے حرمتی پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتی ہے۔"
بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ سفارتی اور قونصلر املاک کو کسی بھی صورت میں نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ ریاستی حکومت نے اس واقعے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔
نئی دہلی نے یہ بھی کہا کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کو تمام اقلیتوں کے تحفظ کی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ بھارت نے انتہا پسندانہ بیان بازی اور ہندوؤں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بھارت نے کہا ہے کہ داس، جن کو مبینہ بغاوت کےالزام میں گرفتار کیا گیا ہے، ان کے ساتھ منصفانہ اور شفاف طریقے سے نمٹا جانا چاہیے۔
بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں کشیدگی
اگست میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
شیخ حسینہ ابھی بھارت میں مقیم ہیں۔ محمد یونس اور دیگر اعلیٰ حکام نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ نئی دہلی کو چاہیے کہ شیخ حسینہ کو ڈھاکہ کے حوالے کردے۔
دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی مشنوں کی حفاظت ایک حساس معاملہ رہا ہے۔
ڈھاکہ میں وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، "موصولہ رپورٹس حتمی طور پر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مظاہرین کو پہلے سے منصوبہ بند طریقے سے بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ ہائی کمیشن کے مین گیٹ کو توڑ کر احاطے میں گھسنے کی اجازت دی گئی تھی۔"
بھارت نے حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد 190 غیر ضروری عملے اور ان کے اہل خانہ کو واپس بھیج دیا تھا۔ اس کے بعد، کئی ہفتوں تک، بنگلہ دیش میں بھارتی مشنوں کے خلاف جارحانہ آن لائن دھمکیاں ملتی رہیں جس نے بھارتی عہدیداروں کو بنگلہ دیش میں بھارتی مشنوں اور عہدیداروں کے لئے سکیورٹی بڑھانے کے لئے آمادہ کیا۔ مظاہروں اور مجموعی طور پر سکیورٹی کی صورتحال کی خرابی کے پیش نظر بھارت کو بنگلہ دیش میں اپنے ویزا درخواست مراکز پر کام بند کرنا پڑا۔ اس کے بعد سے میڈیکل ویزا کے متلاشیوں کو ترجیح دیتے ہوئے صرف محدود ویزا آپریشن کی اجازت دی ہے۔