1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں روہنگیا پناہ گزین بچوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان

30 دسمبر 2024

بھارت میں بیشتر روہنگیا بچوں کو تعلیم تک رسائی کے لیے سخت جدوجہد کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ نئی دہلی انہیں "غیر قانونی غیر ملکی" سمجھتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4ogF4
دہلی کے کھجوری خاص علاقے میں، روہنگیا بچے جو باقاعدہ اسکول جانے سے قاصر ہیں، ایک دینی مدرسے میں داخل ہو گئے ہیں
دہلی کے کھجوری خاص علاقے میں، روہنگیا بچے جو باقاعدہ اسکول جانے سے قاصر ہیں، ایک دینی مدرسے میں داخل ہو گئے ہیںتصویر: Adil Bhat/DW

سات سات سالہ روہنگیا بچی، عائشہ، ہر صبح اٹھ کر اپنی بڑی بہن عاصمہ کی، جب وہ شمال مشرقی دہلی کے علاقے کھجوری خاص میں اسکول کے لیے تیار ہوتی ہے، کافی منت سماجت کرتی ہے۔

عائشہ اپنی بڑی بہن سے التجا کرتی ہے کہ وہ اسے بھی اپنے ساتھ لے جائے، لیکن اس کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی۔ کیونکہ اسے اسی اسکول میں داخلہ دینے سے انکار کردیا گیا جہاں اس کی بہن ساتویں جماعت میں پڑھتی ہے۔

بھارت میں روہنگیا مسلمانوں کے لیے تنگ ہوتی زمین

ان کے والد حسین احمد، ایک روہنگیا پناہ گزین ہیں جو 2017 میں جان بچانے کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ میانمار سے فرار ہو گئے تھے۔ وہ عائشہ کو یہ بتانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ اسکول کے حکام نے اس کے اندراج سے انکار کیوں کیا ہے۔

عائشہ کی ضد اور اداس چہرے کو دیکھ کر انہیں تکلیف ہوتی ہے- اور اس بات کی مستقل یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ ایک پناہ گزین کے طور پر انہیں کس طرح کے مسائل اور رکاوٹیں درپیش ہیں۔

ایک تعمیراتی مزدور احمد بتاتے ہیں، "میں اپنی بیٹی کو داخل کروانے کے لیے ایک سرکاری اسکول سے دوسرے اسکول میں بھاگتا رہا ہوں، لیکن اسے داخلہ دینے سے ہر جگہ انکار کر دیا گیا۔ وہ اسے تعلیم سے محروم کر رہے ہیں۔ میں خود کو انتہائی بے بس محسوس کر رہا ہوں۔"

بھارت میں مقیم روہنگیا افراد کو ملک بدر کیے جانے کا خوف

احمد نے بتایا کہ انہوں نے پناہ گزین بچوں کے اسکول میں داخلے کے لیے درکار اقوام متحدہ کی دستاویزات سمیت تمام ضروری دستاویزات جمع کرادی ہیں۔ تاہم اسکول حکام داخلہ کے لیے ان کی درخوست پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔

احمد بتاتے ہیں، میں اپنی بیٹی کو داخل کروانے کے لیے ایک سرکاری اسکول سے دوسرے اسکول میں بھاگتا پھر رہا ہوں
احمد بتاتے ہیں، میں اپنی بیٹی کو داخل کروانے کے لیے ایک سرکاری اسکول سے دوسرے اسکول میں بھاگتا پھر رہا ہوںتصویر: Adil Bhat/DW

تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں

احمد نے کہا، گزشتہ دو سالوں سے، "حکام نے بھارتی شناختی دستاویزات جیسے آدھار کارڈ کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے، جو کہ بطور مہاجر، ہمارے پاس نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کی طرف سے جاری کردہ دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "ہمارا یو این ایچ سی آر کارڈ بیکار ہو گیا ہے۔"

احمد کا تجربہ کھجوری خاص علاقے میں مقیم دیگر روہنگیا خاندانوں سے ملتا جلتا ہے۔ ان کے گھر سے چند میٹر کے فاصلے پر، ایک اور روہنگیا پناہ گزین، سرور کمال، جو موبائل فون کی مرمت کا کام کرتے ہیں، اپنی 10 سالہ بیٹی کا داخلہ یقینی بنانے کے لیے علاقے کے سرکاری اسکولوں کے چکر لگا رہے ہیں۔

روہنگیا مسلمانوں کے پہلے گروپ کو بھارت بدر کر دیا گیا

کمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میں خود مناسب تعلیم حاصل نہیں کر سکا، اور میں اپنے بچوں کا ایسا ہی انجام نہیں چاہتا۔ لیکن مجھے فکر ہے کہ وہ ہمارے بچوں کے خواب چکنا چور کر رہے ہیں۔"

اس کالونی میں تقریباً 40 روہنگیا خاندان رہ رہے ہیں جب سے وہ میانمار میں ظلم و ستم سے بچنے کے لیے ہجرت کرگئے تھے۔

ان میں سے زیادہ تر خاندان کھجوری خاص کے گنجان آباد علاقے کی تنگ گلیوں میں چھوٹے، کرائے کے کمروں میں رہتے ہیں۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کے مطابق، اس علاقے میں گزشتہ دو سالوں میں 17 بچوں کو داخلہ دینے سے انکار کیا گیا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے ایک اندازے کے مطابق 40,000 روہنگیا بھارت میں رہتے ہیں جن میں سے بیس ہزار اس کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔

بھارت کی پناہ گزینوں سے متعلق کوئی قومی پالیسی نہیں ہے اور وہ روہنگیا کو "غیر قانونی غیر ملکی" سمجھتا ہے۔ بھارت ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے 1951 کے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

ریاست ہریانہ میں بھی روہنگیا بچوں کو ساتویں جماعت کے بعد اسکولوں میں داخلہ دینے سے انکار کیا جا رہا ہے
ریاست ہریانہ میں بھی روہنگیا بچوں کو ساتویں جماعت کے بعد اسکولوں میں داخلہ دینے سے انکار کیا جا رہا ہےتصویر: Nidhi Suresh/DW

 روہنگیا مخالف جذبات میں اضافہ

دریں اثنا، جنوبی ایشیائی ملک میں روہنگیا مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اکثر روہنگیا مخالف بیانات دیتی رہتی ہے، لیکن یہ ایسا کرنے والی واحد سیاسی جماعت نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی، جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے دہلی پر حکومت کررہی ہے، نے بھی آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل اپنی حمایت بڑھانے کے لیے روہنگیا مخالف بیان بازی شروع کردی ہے۔

روہنگیا مہاجرین: بیانات کی بجائے عملی سوچ اپنائیں، بھارت

دہلی کے وزیر اعلیٰ آتشی مارلینا نے بی جے پی کی قیادت والی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ قومی دارالحکومت میں "بڑی تعداد میں غیر قانونی روہنگیا" کو آباد کر رہی ہے۔

روہنگیا ہیومن رائٹس انیشی ایٹو کے بانی صابر کیاو من روہنگیا مسئلے کو سیاست کا شکار بنانے سے پریشان ہیں۔

کیاو من نے کہا کہ روہنگیا کو نشانہ بنانے والی اس قسم کی سیاسی بیانیہ پہلے سے مشکلات کا شکار پسماندہ کمیونٹی کے خوف میں اضافہ کر رہی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ تعلیمی پابندی سیاسی محرک کا حصہ ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے سیاسی فائدے کے لیے ہمیں دشمن کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔" آزادی پراجیکٹ اور ریفیوجیز انٹرنیشنل کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، کم از کم 676 روہنگیا افراد اس وقت پورے بھارت میں امیگریشن حراستی مراکز میں قید ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے نصف خواتین اور بچے ہیں۔

بھارت میں گریجوایشن کرنے والی اولین روہنگیا لڑکی

بچوں کے لیے متبادل اسکولنگ

کھجوری خاص میں، وہ بچے جو باقاعدہ اسکولوں میں جانے سے قاصر ہیں ایک متبادل اسکول میں شامل ہو گئے ہیں - ایک چھوٹا سا دینی مدرسہ جسے ایک روہنگیا پناہ گزین، محمد سید نے قائم کیا تھا۔

مقامی مسلم کمیونٹی کے تعاون سے یہ مدرسہ ایک چھوٹے سے کرائے کے کمرے سے چلتا ہے جہاں سید قرآن کے اسباق سمیت مذہبی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ طلباء اردو بھی سیکھتے ہیں، جس سے انہیں علاقے کے مقامی لوگوں سے بات چیت کرنے میں مدد ملتی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "میں نے یہ کام اس وقت شروع کیا جب مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ یہ روہنگیا طلباء اچھی زندگی گزارنے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے"۔

سات سالہ عائشہ کو داخلہ دینے سے انکار کرنے والے اسکول کے پرنسپل ونود کمار شرما نے کہا کہ ان کے اسکول کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، کیونکہ حکام نے پناہ گزینوں کے بچوں کو داخلے کے لیے اصول طے کر رکھے ہیں۔ شرما نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میں طلباء کو داخلہ نہیں دے سکتا۔ میرے پاس ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔"

"اگر وہ داخلہ لینا چاہتے ہیں تو ان کے اہل خانہ کو محکمہ تعلیم میں اعلیٰ حکام سے رجوع کرنے اور اجازت لینے کی ضرورت ہے۔"

میانمار میں ظلم و ستم سے  بچنے کے لیے فرار ہونے کے بعد سے تقریباً 40 روہنگیا خاندان اس کالونی میں رہ رہے ہیں
میانمار میں ظلم و ستم سے بچنے کے لیے فرار ہونے کے بعد سے تقریباً 40 روہنگیا خاندان اس کالونی میں رہ رہے ہیںتصویر: Adil Bhat/DW

روہنگیاؤں کی قانونی جنگ

تاہم، صرف دہلی کی اس کالونی میں پناہ گزین اس مسئلے سے دوچار نہیں ہیں۔ پڑوسی ریاست ہریانہ میں روہنگیا بچوں کو ساتویں جماعت کے بعد اسکولوں میں داخلہ دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔

ریاست کے نوح کیمپ میں ایک کمیونٹی لیڈر ایمانوئل محمد نے 90 طلباء کے لیے مفت ٹیوشن شروع کر دی ہے جنہیں اسکولوں میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔

محمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔ تعلیم ہی ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کا واحد ذریعہ ہے۔"

اکتوبر میں، دہلی ہائی کورٹ نے روہنگیا بچوں کو مقامی سرکاری اسکولوں میں داخل کرنے کی درخواست پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ چونکہ روہنگیا کو قانونی طور پر بھارت میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی ہے، اس لیے یہ معاملہ بھارت کی وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

درخواست دائر کرنے والے وکیل اشوک اگروال عدالت کے فیصلے سے مایوس ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بھارتی آئین تعلیم کو ملک کے ہر بچے کے بنیادی حق کے طور پر ضمانت دیتا ہے، چاہے ان کی شہریت کی حیثیت کچھ بھی ہو۔

اگروال ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رہے ہیں، اور امید ہے کہ سپریم کورٹ جلد ہی اس کیس کی سماعت کے لیے ایک تاریخ طے کرے گی۔

کھجوری خاص میں احمد کی بیٹی، اسماء نے اپنی چھوٹی بہن، عائشہ کو پڑھانے کی ذمہ داری لے لی ہے، اور اس دن کا انتظار کررہی ہے جب اس کے لیے بھی اسکول کے دروازے کھل جائیں اور دونوں بہنیں ایک ساتھ پڑھنے جاسکیں۔

بھارت: روہنگیا خواتین شدید مشکلات سے دوچار

ج ا ⁄ ص ز (عادل بھٹ نئی دہلی)