بھارت: نرسری میں داخلے کی جنگ اور قابل رحم والدین
4 جنوری 2021کسی یونیورسٹی میں ایڈمیشن کے لیے بھاگ دوڑ اور مسابقت تو سمجھ میں آتی ہے، مگر چار سالہ بچے کو جس طرح امتحان میں ڈالا جاتا ہے اور جس کی وجہ سے والدین کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں، اس سے تعلیمی محاذ پر سبھی ترقی بے کار لگتی ہیں۔ نرسری جماعت میں داخلے کے لیے اوسطاً والدین کو 20 مختلف اسکولوں کے فارم بھرنے پڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ مندروں،گوردواروں اور درگاہوں کے چکر لگا کر بچے کے داخلہ کے لیے دعائیں کرنا پڑتی ہیں۔
دسمبر میں اسکول ایڈمیشن کی کارروائی شروع کرتے ہیں اور جنوری کے اواخر تک والدین کے لیے جیسے محشر کا سماں ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ نرسری کا ایڈمیشن ہی بچے کا مستقبل طے کرے گا۔ ننھے بچے کو معلوم بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس کے اردگرد کیسا تناؤ بھرا ماحول بن گیا ہے۔ چار سال قبل جس کی کلکاریوں کی وجہ سے گھر میں خوشیاں دوڑ گئی تھیں، اب اسی کی وجہ سے اسی گھر میں بے اطمینانی ہے۔
ہر انٹرویو سے قبل تو اکثر والدین یہ تناؤ بچے کو بھی متقل کرتے ہیں اور زبردستی اس کو آداب مجلس یا ابتدائی حروف کی پہچان کروا کر اسکول کے انٹرویو بورڈ کے سامنے پیش ہونے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اب ایسے ماحول میں بچے کی اپنی شخصیت کیا خاک نکھرے گی؟ اب اگر بچے کا ایڈمیشن ہو جاتا ہے تو یہ کسی قلعے کو فتح کرنے سے کم نہیں ہوتا ہے۔
مبارک باد دینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ والدین اپنے احباب و اقار ب کے لیے پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ پچھلے سال جب مجھے اپنے بیٹے کے ایڈمیشن کے لیے تگ ودو کرنا پڑ ی، تو محسوس ہوا کہ ایڈمیشن کا پورا عمل جسمانی اور ذہنی طور پر کتنا تھکا دینے والا ہوتا ہے۔ اکثر اسکول تو والدین کا تحریری ٹیسٹ بھی لیتے ہیں۔ پتہ نہیں اس سے ان کو کیا نتیجہ نکالنا مقصود ہوتا ہے؟
اس سال کورونا وائرس کی وباء کی وجہ سے حکومت دہلی نے نرسری میں داخلے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سال چار سالہ بچے اور والدین ایڈمیشن کی تگ و دو سے بچ تو جائیں گے، مگر اگلے سال ان کو سینئر کلاس کے لیے مسابقت سے گزرنا پڑے گا۔
ہم اس وقت غیرمعمولی دور سے گزر رہے ہیں۔ ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کے مثبت اور منفی اثرات بھی ہیں۔ پچھلے سال میں نے نرسری میں ایک نشست حاصل کرنے کے لیے 34 اسکولوں کے دروازے کھٹکٹھائے۔ تقریبا تین ماہ تک میری زندگی کا مقصد ہی بچے کو اسکول میں داخلہ دلوانا بن گیا۔ کھانے پینے کا نہ آرام کا ہوش۔ کوئی ملاقاتی یا کسی دوست سے ملاقات ہوتی تو بس گفتگو کا مرکز بچے کا ایڈمیشن ہی ہوتا تھا۔
کئی دوستوں کو بھی لگا کہ ایڈمیشن کچھ زیا دہ ہی میرے ذہن پر سوار ہو گیا ہے۔ میرا دن ہی اسکولوں کے چکر لگانا، واٹس ایپ گروپس اور داخلے سے متعلق دیگر پلیٹ فارموں پر نہ ختم ہونے والی گفتگو میں حصہ لینا بن گیا تھا۔
ایک طرح کی اس جنگ کے دوران مجھے یاد ہے کہ کئی افراد نے مجھ سے رابطہ کر کے داخلہ دلانے کا وعدہ کیا، مگر کہا کہ میں کئی لاکھ روپے تیار رکھوں۔ اتنی رقم میں نے اپنی زندگی میں پوری تعلیم پر بھی خرچ نہیں کی تھی۔ مگر آپ کو بھی یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اکثر والدین یہ رقم دینے کے لیے تیار تھے۔
اب آپ کسی ایسے والدین کی مایوسی کا تصور کر سکتے ہیں، جو نرسری یا پری اسکول میں داخلے کے لیے تین سے چار لاکھ روپے خرچ کرنے کے لیے تیار ہو اور پھر بھی اس کا بچہ ایڈمیشن سے محروم رہے۔ جس شخص نے خطیر رقم لے کر داخلے کا وعد ہ کیا تھا، میں نے ان سے پوچھا کہ اگر مطلوبہ اسکول میں ایڈمیشن نہیں ہوتا ہے اور بچہ داخلے کے بعد اس اسکول میں خوش نہیں رہے گا، تو کیا یہ رقم مجھے واپس ملے گی یا پھر اس کی کوئی رسید ملے گی؟ وہ حضرت میرے سوال سے ہی مشتعل ہو گئے اور مجھے کسی دوسری دنیا کی مخلوق سمجھ کر گفتگو ختم کر دی۔
ایسا نہیں ہے کہ دہلی میں اسکولوں کی کمی ہے۔ محکمہ تعلیم کے مطابق شہر میں دو ہزار کے قریب پرائیویٹ اسکول ہیں اور اتنی ہی تعداد میں سرکاری اسکول بھی ہیں۔ لیکن بس چند اسکول معیار اور وقار کے لیے مشہور ہیں اور ان میں ایڈمیشن دلانا والدین کے لیے وقار کا مسئلہ بنتا ہے۔ کچھ اس دوڑ میں جیت جاتے ہیں، باقی سمجھوتہ کر کے دوسرے اسکولوں کے دروازے کھٹکٹھاتے ہیں۔ کئی تو مایوسی کے عالم میں بچے کو قصور وار ٹھہرا کر کم عمری میں ہی اس کو ناکامی کا احساس دلواتے رہتے ہیں۔
سن 2017 میں ریلیز ہوئی بالی ووڈ کی ایک ہندی فلم میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح اداکار عرفان خان اور پاکستانی اداکارہ صبا قمر کو دہلی کے ایک مشہور و معروف اسکول میں اپنے بچے کے ایڈمیشن کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔ یہ فلم والدین کی انتہائی آرزؤں اور ہمارے نظام تعلیم کی خرابیوں اور خامیوں کو اجاگر کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ والدین ایڈمیشن کے عمل کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔
16 سال قبل جب میں دہلی میں منتقل ہوئی، تب سے ہی میں نے پہلے صحافی کی حثیت اور پھر ایک ماں ہونے کے ناطے والدین کو پاگل پن کی حد تک بھاگ دوڑ کرتے دیکھا۔ دہلی حکومت کے فیصلے سے والدین کو فی الحال عارضی سکون تو ملا ہے، مگر وہ پریشان بھی ہیں کہ اگلے سال ان کے بچے کس طرح سینئر کلاس میں داخلہ لے سکیں گے۔