1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوج کے 'ہتھیار ڈالنے' والی تصویر پر تنازعہ کیا ہے؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
17 دسمبر 2024

بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ سن اکہتر کی جنگ سے متعلق تصویر کو ہٹایا نہیں گیا بلکہ اسے دوسری جگہ منتقل کیا گیا ہے۔ اس تصویر میں پاکستانی فوج کو بنگلہ دیش میں بھارتی حکام کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4oEXD
سن 1971 کی بنگلہ دیش جنگ
یہ تصویر 16 اکتوبر سن 1971 کے روز کی ہے جب ڈھاکہ میں پاکستانی افواج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار دال دیے تھے، تصویر کے درمیان جنرل نیازی ہیں، جو سرنڈر دستاویزات پر دستخط کر رہے ہیں تصویر: AP/picture alliance

بھارت میں پیر 16 دسمبر کے روز اس وقت ایک نیا تنازعہ پیدا ہوا، جب سن 1971 میں ہونے والی بنگلہ دیش کی جنگ آزادی سے متعلق ایک معروف تصویر کو ملک کے فوجی سربراہ کے لاؤنج سے ہٹا دیا گیا اور اس کی جگہ دوسرے فن پاروں کو وہاں آویزاں کیا گیا۔

حزب اختلاف کے رہنماؤں اور بعض سابق سرکردہ فوجیوں نے اس اقدام پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر فوجی تاریخ کو کمزور کرنے کا الزام لگایا اور اس تصویر کو بھارتی فوجی سربراہ کے لاؤنج میں دوبارہ اسی مقام پر لگانے کا مطالبہ بھی کیا۔

بنگلہ دیش، جماعت اسلامی کے رہنما کو پھانسی دے دی گئی

واضح رہے کہ 16 دسمبر 1971 پاکستانی افواج نے ہتھیار ڈالنے اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کو سقوط ڈھاکہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مذکورہ تصویر میں بھارتی فوجی حکام کے سامنے پاکستانی فوج کے جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

کیا پاکستان کو بنگلہ دیش سے معافی مانگنی چاہیے؟

بھارتی فوج کی وضاحت

جب میڈيا میں اس کے تذکرے شروع ہوئے اور مختلف رہنماؤں نے اس معاملے پر حکومت پر سیاست کرنے کا الزام عائد کیا، تو بھارتی فوج نے اس پر ایک بیان جاری کر کے اپنی وضاحت پیش کی اور کہا کہ اس تصویر کو ہٹایا نہیں گیا بلکہ اسے دوسری جگہ منتقل کیا گیا ہے۔

فوج نے کہا کہ اس تصویر کی منتقلی ایک دانستہ اقدام ہے تاکہ پینٹنگ کی بھارتی اور بیرون ملک کے وسیع تر ناظرین کے سامنے نمائش کی جا سکے۔ بھارتی فوج 16 دسمبر کے روز 'وجے دیوس' یعنی یوم فتح کی تقریب منعقد کرتی ہے اور اسی روز اس معروف تصویر کو منتقل کیا گیا۔ اس تقریب میں اعلیٰ فوجی حکام، سابق فوجیوں اور حاضر سروس اہلکاروں نے شرکت کی۔

مودی کا بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے لیے جیل جانے کا دعویٰ

فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا، "یہ پینٹنگ بھارتی مسلح افواج کی سب سے بڑی فوجی فتوحات میں سے ایک ہے اور سب کے لیے انصاف اور انسانیت کے لیے بھارتی عزم کا ثبوت ہے۔ اسے مانیک شا سینٹر نئی دہلی میں رکھا گیا ہے، جہاں کافی تعداد میں بھارت اور بیرون ملک کے ناظرین پہنچتے ہیں اور اس طرح بڑی تعداد میں لوگ اس تصویر کو دیکھ سکیں گے۔"

سن اکہتر کی جنگ کی تصویر
اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سب سے بائیں بھارتی فوج کے جنرل جگجیت سنگھ اروڑا بیٹھے ہیں جبکہ درمیان میں اس وقت کی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل نیازی ہتھیار ڈالنے والے دستاویزات پر دستخص کر رہے ہیںتصویر: AP

فوجی سربراہ کے لاؤنج میں کس نئی چیز کی نمائش کی گئی ہے؟

بھارتی آرمی چیف کے لاؤنج میں اب 1971 میں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے والی تصویر کی جگہ دیگر فن پاروں کو لگایا گیا ہے، جس میں لداخ کی پینگاگ سو جھیل، مہابھارت سے متاثرہ تھیمز اور جدید جنگی حکمت عملی سے متعلق فن پارے شامل ہیں۔

مہابھارت ہندوؤں کی ایک مقدس کتاب ہے، جس میں ہندو دیوی دیوتاؤں اور ایک ہندو راجا کے خاندان کے دو گروپ کورو اور پانڈو کے درمیان ہونے والی جنگ کو بیان کیا گیا ہے۔ 

بنگلہ دیش کے قیام کی پچاسویں سالگرہ، پوپ کی طرف سے مبارک باد

جبکہ پینگانگ جھیل مشرقی لداخ میں وہ مقام ہے، جہاں بھارت اور چین کے درمیاں کئی برسوں سے کشیدگی جاری ہے۔ سن 2020 میں دونوں کے درمیان ایک جھڑپ میں بھارت کے بیس جبکہ چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ نئی پینٹنگز اور تصاویر اس بات کی عکاس ہیں کہ بھارت چین کے ساتھ اپنی شمالی سرحد پر اب زیادہ توجہ مرکوز کر رہا ہے۔

بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے نائب سیکرٹری جنرل کو بھی سزائے موت

اپوزیشن کا اعتراض

پارلیمان میں حزب اختلاف کے رہنما رہول گاندھی نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ اس سے بھارتی فوج کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

ایوان کے باہر راہول گاندھی کی بہن پریانکا گاندھی، جو ابھی حال ہی میں انتخاب جیت کر پہلی بار پارلیمان پہنچی ہیں، نے کہا کہ یہ ملک کا معاملہ ہے اور اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا، "فوج کے ہیڈ کوارٹر سے آج کے دن آپ وہ تصویر اتار رہے ہیں، جو ایک عرصے سے وہاں آویزاں تھی۔"

’جنگی جرائم‘: جماعت اسلامی کے رہنما کے لیے سزائے موت کی توثیق

ان کا مزید کہنا تھا، "اس تصویر میں فیلڈ مارشل مانیک شا، جنرل اروڑا اور بریگیڈیئر چندر پال جی ہیں، آج کے دن آپ ان کی بے عزتی کر رہے ہیں؟ یہ ملک کے فخر کی بات ہے، اس آپ سیاست کیوں کر رہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تصویر وہیں پھر سے آویزاں کی جائے۔"

بعض سابق فوجیوں نے اس تبدیلی کی مذمت کی اور اسے "فوجی تاریخ پر حملہ" اور سن 1971 کی جنگ میں لڑنے والوں کی "توہین" قرار دیا۔ ایک ریٹائرڈ افسر نے کہا، "تصویر ہٹانے کے فیصلے سے فوجیوں کی قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔"