بھارتی وزیراعظم مودی کی ’پاٹھ شالہ‘
5 ستمبر 2014اپوزیشن نے بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں کے بیس لاکھ سے زائد بچوں سے خطاب کرنے کے اس پروگرام کو بے تکا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اختیارات کا بے جا استعمال ہے۔ دوسری طرف اس سرکاری فرمان سے طلبہ، سرپرست اور اساتذہ بھی پریشانی محسوس کر رہے ہیں۔
بھارت میں سابق صدر اور ماہر تعلیم سرو پلی رادھا کرشنن کی یوم پیدائش کی مناسبت سے5 ستمبر کو ٹیچرز ڈے منانے کا سلسلہ سن 1962 سے جاری ہے۔ اس دن بالعموم اساتذہ کی عزت افزائی کے لیے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جب کہ طلبہ اور اساتذہ روایتی ڈسپلن سے ذرا ہٹ کر دوستانہ ماحول میں تفریح کا سامان بھی پیدا کرلیتے ہیں، لیکن یہ پہلا موقع ہے جب وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ وہ اسکول کے بچوں سے براہ راست خطاب کریں گے۔ اس کے لیے دہلی کینٹ میں فوج کے ایک آڈیٹوریم میں1000بچے یکجا ہوں گے، جہاں وزیر اعظم مودی سہ پہر تین بجے سے چار بجکر 45 منٹ تک ان سے خطاب کریں گے اور ان کے سوالوں کے جواب دیں گے۔
اس کے علاوہ ملک کے شمال میں دانتے واڑہ، جنوب میں ترونیلولی، مغرب میں بھج اور مشرق میں سلچر کے طلبہ بھی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے وزیر اعظم سے سوالات کر سکیں گے۔ اس پروگرام کو قومی نشریاتی ادارہ دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ دیگر نیوز چنیلوں اور ایف ایم ریڈیو کے ذریعے براہ راست نشر کیا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ اس تقریب کو یو ٹیوب کے علاوہ وزارت برائے فروغ انسانی وسائل اور وزارت اطلاعات و نشریات کی ویب سائٹوں نیز تمام ریاستی حکومتوں کے محکمہ تعلیم کی ویب سائٹوں پر بھی نشر کیا جائے گا۔
یہ پروگرام انسانی وسائل کے فروغ کی وزارت کے اس سرکلر کے بعد متنازعہ ہوگیا تھا، جس میں اسکولوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ وزیر اعظم کی تقریر بچوں کو سنوانے کے لیے مناسب تعداد میں ٹیلی ویژن، سیٹ ٹاپ باکس کنکشن، پروجیکٹرز، اسکرینز، ایمپلیفائرز، جنریٹرز سیٹ یا انورٹر اور ریڈیو یا دوسری ضروری چیزوں کا انتظام کریں اور اگر انتظامات کے سلسلے میں کوئی تساہلی پائی گئی تو اسے سنجیدگی سے لیا جائے گا۔
بھارت میں تعلیم ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اس لیے غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں نے اسے اپنے دائرہ اختیار میں مداخلت سے تعبیر کیا ۔ دوسری طرف معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوگیا، جب ٹیچرز ڈے کو ’’گرو اتسو‘‘ کا نام دیا گیا۔ حالانکہ انسانی وسائل کے فروغ کی وزیر محترمہ اسمرتی ایرانی نے اس تنازعے کو یہ کہہ کر ختم کرنے کی کوشش کی کہ وزیر اعظم کی تقریر سنانے کا انتظام کرنا اختیاری ہو گا اور گرو اتسو دراصل اس موقع پر منعقدہ ایک تحریری مقابلہ کا نام ہے۔
تاہم اس تمام معاملے پر مغربی بنگال کی وزیر اعلٰی ممتا بنرجی اور تمل ناڈو کی وزیر اعلٰی جے جیہ للِیتا نے حکومت کے اقدام پر سخت اعتراض کیا ہے۔ دوسری طرف تمل ناڈو کے سابق وزیر اعلٰی ایم کروناندھی نے اسے ہندی زبان کو تھوپنے کی سازش قرار دیا۔
اپوزیشن کانگریس نے وزیر اعظم کے اس فیصلے کی سخت نکتہ چینی کی ہے اور اس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل نریندر مودی کو اپنے امیج کی کافی فکر ہے، وہ اس احساس کمتری میں مبتلا ہیں کہ انہیں گاوں میں کوئی نہیں جانتا۔ کانگریس نے سوال کیا کہ کیا پہلے، دوسرے اور تیسرے درجے میں پڑھنے والے بچوں کی ذہنی صلاحیت اتنی ہوتی ہے کہ وہ وزیر اعظم کی تقریر کو سمجھ سکیں۔ ایسے میں ذاتی شخصیت کو نمایاں کرنے کے لیے سرکاری مشنری کا استعمال قطعی نامناسب ہے۔
جنتا دل یونائٹیڈ کے ممبر پارلیمنٹ اور سابق سفیر پون کمار ورما نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر نریندر مودی وزیر اعظم کی حیثیت سے بچوں کے ساتھ ملاقات کرتے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس پورے پروگرام میں جس طرح ایک شخصیت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ افسوس ناک ہے اور وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ ٹیچرز ڈے کا ایک خاص پس منظر ہے اور اس دن مخصوص قسم کے پروگرام ہوتے ہیں لیکن اب سارا زور اس بات پر ہے کہ آپ وزیر اعظم کا بھاشن سنیے۔‘‘
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقلیتی سیل کے قومی نائب صدر محمد عرفان احمد کا کہنا ہے کہ بچے مستقبل کے رہنما ہیں اور وزیر اعظم مودی سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق مودی چاہتے ہیں کہ بچوں کو بھی یہ معلوم ہو کہ مستقبل میں انہیں کیا کرنا ہے۔
اس تنازعے میں بہر حال سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہی نظر آرہا ہے حالانکہ بعض بچے یہ سن کر خوش ہو رہے ہیں کہ وزیر اعظم ان سے بات کریں گے لیکن سب سے زیادہ پریشانی ان بچوں کو ہے، جن کے امتحانات سر پر ہیں یا جن کی کلاس دوپہر ایک بجے ختم ہوجاتی ہے، لیکن اب انہیں وزیراعظم کی تقریر سننے کے لیے شام پانچ بجے تک اسکول میں رکنا پڑے گا۔
اس دوران وزیر اعظم مودی نے اساتذہ سے ملک کی نئی نسل کو سنوارنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اگر سماج اور ملک کو ترقی کرنا ہے تو ٹیچروں کو اپنے وقت سے ہمیشہ دو قدم آگے رہنا ہوگا، انہیں عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنا ہوگا اور نئی نسل میں ان تبدیلیوں کے لیے تجسس پیدا کرکے انہیں ان تبدیلیوں کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تدریس کوئی پیشہ یا ملازمت نہیں بلکہ طرز زندگی اور فرض زندگی ہے اور ٹیچر کبھی اپنے فرض سے سبکدوش نہیں ہوتا وہ نئی نسل کی تدریس کا عمل ہمیشہ جاری رکھتا ہے۔