1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبدیلی کے مراحل

22 دسمبر 2024

اگرچہ تبدیلی ایک ناگزیر عمل ہے مگر معاشرے میں جب روایات مضبوط ہو جائیں تو حکمراں طبقہ تبدیلی کو روکتا ہے۔ موجودہ حالات اور اپنی امتیازی حیثیت کو قائم رکھتے ہوئے تبدیلی کی تحریکوں کو روکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4oQv0
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

جب بھی کسی معاشرے میں ماضی کی روایات مضبوطی کے ساتھ جڑ پکڑ لیتی ہیں تو اِن روایات سے اشرافیہ کو یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مراعات کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے طبقوں کو کم تر سمجھتے ہیں۔ اپنے خاندان ذات پات جائیداد اور ریاستی اداروں پر تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی تبدیلی کو گوارا نہیں کرتے ہیں۔ موجوہ حالات کو استحکام دینے کے لیے مذہب کو بھی استعمال کرتے ہیں، یعنی یہ دلیل دی جاتی ہے کہ تبدیلی کے لیے باعمل ہونا عام لوگوں کا کام نہیں ہے۔ یعنی تبدیلی مسیح یا مہدی کے ذریعے آئیں گی۔ اس لیے عام طور لوگوں کو خاموشی سے اُس وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔

جب موجودہ حالات بحران کا شکار ہو جاتے ہیں اور مذہبی روایات مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہو جاتیں ہیں تو اس ماحول میں احیاء کی تحریکیں اُبھرتیں ہیں تا کہ واپس قدیم روایات کی طرف جایا جائے، اور وقت کے ساتھ جو اداروں اور روایات میں آلودگی آ گئی ہے اُسے دور کیا جائے۔ اِس کی ایک مثال فلورنس میں مبلغ جیرولا ساوونا رولا (Savonarola) کی تھی، جس نے پوپ اور چرچ کی بدعنوانی کے خلاف آواز اُٹھائی اور فلورنس کی اکثریت کو اپنا ہمنوا بھی بنایا۔ مگر پوپ نے طاقت کے ذریعے اُن کی تحریک کو ختم کر کے انہیں پھانسی پر لٹکایا۔ اطالوی فلسفی اور شاعر  نیکولو ماکیاویلی نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ اگر Prophet غیر مسلح ہو تو اسے شکست دینا آسان ہوتا ہے۔ ساوونا رولا  کے ماننے والے ہر سال اُس کی پھانسی کی جگہ پھول رکھ دیا کرتے تھے۔

فرانسیسی انقلاب کی وجہ سے جب فرانس میں تبدیلی آئی تو پرانے اداروں اور روایات کو ختم کر کے تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھایا۔ اس پر انگلستان کے ''ہاؤس آف کامن‘‘ کے رُکن ایڈمنڈ برک نے اپنی کتاب "Reflections on the French Revolution” میں اس پر سخت تنقید کی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ انقلاب نے صدیوں کی پرانی روایات اور اداروں کو ختم کر کے فرانس میں ایک خلاء پیدا کر دیا ہے اور اس خلا کو آسانی کے ساتھ پر نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ نئے نظام کو تشکیل دینے کے لیے معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ اُس میں ذہنی ترقی ہو اور وہ وقت کا بہترین اِستعمال کر سکے۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب پرانا نظام فرسودہ اور ناکارہ ہو جائے اور محض اشرافیہ کو اس سے فائدہ ہو اور  معاشرے پر سیاسی اور معاشی تسلط کے ذریعے عوام کو اُن کے حقوق سے محروم رکھے تو اس صورت میں آنے والی نسلیں اس کو برداشت نہیں کرتیں ہیں۔ کیونکہ اُن میں جو توانائی اور اہلیت ہوتی ہے اس کے لیے وہ معاشرے میں اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں۔ پھر وہ اشرافیہ کے تسلط کو توڑ کر تحریکوں کے ذریعے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس مرحلے پر قدیم اور جدید نظریات کے درمیان تصادُم پیدا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے کی ساخت کو بدلنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن اصلاحات کے ذریعے تبدیلی لائی جاتی ہے اور کبھی انقلاب تبدیلی کا باعث ہوتا ہے۔ لہٰذا تبدیلی پُراَمن طریقے سے بھی آتی ہے، جس کی مثال برطانیہ کی سیاست ہے اور خونریزی کے ذریعے بھی جیسا کہ فرانسیسی انقلاب میں ہوا۔

اِس تناظر میں جب ہم پاکستان کے معاشرے کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ صورتحال آتی ہے کہ اشرافیہ نے ریاست کے تمام ذرائع پر تسلط پا کر اپنی مراعات کو زیادہ سے زیادہ وسعت دے دی ہے۔ جبکہ عام آدمی محرومیوں کا شکار ہے۔ اشرافیہ موجودہ صورتحال کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے تحفظ کے لیے قانون، تعلیم اور مذہب کو استعمال کرتی ہے۔ پابندیوں کی وجہ سے معاشرے میں نہ نئی سوچ پیدا ہو رہی ہے اور نہ کوئی سماجی علوم اور  نا ہی سائنس کے میدان میں کوئی ترقی ہوئی ہے۔ فرسودہ روایات نے معاشرے کی تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کر دیا ہے۔ پاکستان میں نوجوان کی اکثریت انہی وجوہات کی بنیاد پر سائنس اور ٹیکنالوجی میں تخلیق کے بجائے تقلید پر عمل کرتی ہے جس نے انہیں ذہنی طور پر غلام بنا کر ان کی عزت اور وقار کو ختم کر دیا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔