ترکی اگلے سات برسوں میں یورپی یونین کی رکنیت کا خواہش مند
19 اگست 2016جرمن دارالحکومت برلن سے جمعہ انیس اگست کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین میں ترکی کے سفیر سلیم یےنَیل (Selim Yenel) نے جرمن جریدے ’دی وَیلٹ‘ میں اپنے آج شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ ترکی کی خواہش ہے کہ 2023ء تک، جب جدید ترک جمہوریہ اپنے قیام کی سوویں سالگرہ منائے گی، اس ملک کو یونین کی رکنیت دے دی جانا چاہیے۔
ترک سفیر نے ’دی وَیلٹ‘ کو بتایا، ’’ہمارے ملک کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی کہ تب تک ترکی یورپی یونین کی رکن ریاست بن جائے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ترکی کے لیے یونین کی مکمل رکنیت انتہائی اہم ہے اور طویل المدتی بنیادوں پر انقرہ کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں کہ وہ اس یورپی اتحاد کی رکنیت سے محروم رہے۔‘‘
اس موقع پر سلیم یےنَیل نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور دیگر سرکردہ یورپی رہنماؤں سے یہ اپیل بھی کہ کہ وہ جولائی کے وسط میں ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد اس وقت کے ترکی کا دورہ کریں، جسے یورپ کی طرف سے ترکی میں جمہوریت کی تائید و حمایت کے اظہار کے طور پر دیکھا جائے گا۔
ترکی 1999ء سے اپنے لیے یورپی یونین کی رکنیت کا خواہش مند ہے مگر اس سلسلے میں اب تک نظر آنے والی پیش رفت انتہائی سست رفتار رہی ہے۔ ماضی میں کئی یورپی ملکوں کے رہنما بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ ترکی کو یونین کی ممکنہ رکنیت ملنے میں ابھی کئی عشرے لگیں گے۔
برطانیہ میں جون کے بریگزٹ نامی ریفرنڈم سے قبل اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی کہا تھا کہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت ’شاید 3000ء تک ممکن‘ ہو سکے۔
اس کے علاوہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد انقرہ حکومت نے ملک میں مسلح افواج اور سرکاری اداروں میں ’تطہیر‘ کا جو عمل شروع کر رکھا ہے، اس کے پس منظر میں آسٹریا نے بھی اسی مہینے یہ مطالبہ کر دیا تھا کہ برسلز کو ترکی کے ساتھ اس کی یورپی یونین میں ممکنہ رکنیت سے متعلق اپنے کئی برسوں سے جاری مذاکرات ختم کر دینا چاہییں۔ آسٹرین رہنماؤں نے تب اپنے اس مطالبے کی وجہ آج کل کے ترکی میں جمہوری معیارات کا فقدان بتائی تھی۔