ترکی شامی پناہ گزينوں کے ليے جنت، دوسروں کے ليے دوزخ
5 جون 2017
پاکستانی تارک وطن شعيب اسلم کا تعلق گجرات کے گاؤں دتے والا سے ہے۔ ان دنوں وہ مشرقی ترکی کی ايک جيل ميں قيد ہے۔ شعيب کو يونان کے جزيرے کوس سے اٹھائيس اپريل کو حراست ميں ليا گيا اور پھر گيارہ مئی کو اسے ترکی بھيج ديا گيا۔ اس پاکستانی تارک وطن کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس يونان ميں قيام کے تمام قانونی دستاويزات موجود تھے ليکن اس کے باوجود اسے ملک بدر کر ديا گيا۔ اب ترکی ميں اسے جيل انتظاميہ يہ دھمکی ديتی ہے کہ اگر شعيب نے رضاکارانہ بنيادوں پر واپس اپنے ملک کا رخ نہيں کيا، تو اسے ايرانی حکام کے حوالے کر ديا جائے گا۔ اس کا يہ بھی دعویٰ ہے کہ يونان ميں تو امدادی تنظيموں کے ارکان سے اس کی ملاقات ہوئی تھی تاہم ترکی ميں وہ بارہا کوششوں کے باوجود تاحال کسی ايسے رضاکار يا امدادی کارکن سے نہيں مل سکا جسے وہ اپنی داستان سنا سکے اور قانونی مشورہ لے سکے۔
انسانی حقوق کے ليے سرگرم تنظيم ہيومن رائٹس واچ کی حال ہی ميں شائع کردہ ايک رپورٹ ميں يہ انکشاف کيا گيا ہے کہ ترکی ميں ديگر ممالک کے تارکين وطن کو وہ مواقع و سہوليات دستياب نہيں جو شامی پناہ گزينوں کو دی جاتی ہيں۔ ديگر شعبوں کے علاوہ ملازمت يا تعليم کے مواقع تک کی رسائی ميں يہ تفريق کافی نماياں ہے۔
پاکستانی تارک وطن شعيب اسلم نے بتايا کہ جب اسے يونان سے ملک بدر کيا گيا، تو اس کے ہمراہ چھتيس ديگر پاکستانی بھی تھے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ان تمام نے تو پناہ کی درخواست تک نہيں دی تھی کہ انہيں يورپ بدر کر کے ترکی بھيج ديا گيا۔ اپنی داستان بيان کرتے وقت شعيب نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ ايک خاندانی لڑائی کی وجہ سے پاکستان ميں اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس پاکستانی مہاجر نے ڈی ڈبليو سے خود رابطہ کر کے بتايا کہ اس وقت وہ کافی بے يقينی کی صورت حال سے دوچار ہے۔ بعد ازاں شعيب کے بھائی نے بھی کويت سے ٹيلیفون پر رابطہ کر کے يہ گزارش کی کہ اس کے گھر والے شعيب کی جان کے ليے کافی فکرمند ہيں اور انہيں مدد درکار ہے۔ شعيب اور اس کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ ترکی ميں نہ تو حکام انہيں قانونی مشاورت فراہم کر رہے ہيں اور نہ کوئی واضح جواب ديتے ہيں۔ ليکن کيا ترکی ميں ايسے سلوک کا سامنا کرنے والا شعيب واحد شخص ہے؟
ہيومن رائٹس واچ کے مطابق ترکی ميں ديگر ملکوں کے تارکين وطن کے ساتھ ’امتيازی سلوک‘ اختيار کيا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شامی مہاجرين کی ترکی ميں نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہيں ليکن ايرانی، افغان اور ديگر شہريتوں کے حامل تارکين وطن کو طرابزون اور دنيزلی جيسے شہر بھيج ديا جاتا ہے، جہاں ملازمت و تعليم کے مواقع مقابلتاً کم ہيں۔ شہر چھوڑنے پر پناہ گزينوں کی سياسی حيثيت ميں تبديلی يا ان کی گرفتاری بھی ممکن ہے۔ سياسی پناہ سے متعلق ترک قوانين يورپی، شامی اور ديگر ممالک کے پناہ گزينوں ميں تفريق کرتے ہيں۔ غير شامی پناہ گزينوں کو سياسی حيثيت برقرار رکھنے کے ليے ہر دو ہفتے ميں ايک بار متعلقہ دفتر کا چکر لگانا پڑتا ہے۔ علاوہ ازيں انہيں انسانی بنيادوں پر امداد کے فقدان اور ملازمت کی عدم دستيابی کی وجہ سے شہر تبديل کرنے کی اجازت نہيں، حتیٰ کہ ديگر شہروں کے عارضی سفر کے ليے بھی باقاعدہ اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
ترک شہر استنبول ميں مہاجرين کے ساتھ کام کرنے والی ايک سماجی کارکن نے ہيومن رائٹس واچ کو بتايا کہ انہوں نے کسی غير شامی تارک وطن کو ملازمت کی اجازت ديے جانے کے بارے ميں آج تک تو نہيں سنا۔ طرابزون ميں چار ہزار سے زائد افغان مہاجرين موجود ہيں ليکن صرف پچيس کو کام کرنے کی باقاعدہ اجازت ہے۔ نتيجتاً غربت کے سبب ايسے مہاجرين اکثر غير قانونی ملازت کا راستہ اختيار کرتے ہيں۔ سولہ سالہ افغان تارک وطن عثمان کپڑا بنانے والی ايک فيکٹری ميں يوميہ گيارہ گھنٹے اور ہفتے ميں پانچ دن کام کرتا ہے۔ افغانستان ہی کی شہری چواليس سالہ عاليہ نے بھی ہيومن رائٹس واچ کو بتايا کہ اٹھارہ برس سے کم عمر کے اس کے تين بيٹے ديگر بہن بھائيوں کا پيٹ پالنے کے ليے اسی طرح غير قانونی طور پر کام کرتے ہيں۔
امريکا ميں قائم ايک غير سرکاری تنظيم ’ريفيوجيز انٹرنيشنل‘ نے اس سال فروری ميں اپنی ايک رپورٹ ميں انقرہ حکومت پر زور ديا تھا کہ 1951ء کے ريفيوجی کنونشن پر جغرافيائی بنيادوں پر عملدرآمد ترک کر کے ملک گير بنيادوں پر عملدرآمد شروع کيا جانا چاہيے تاکہ تمام ممالک کی شہريت رکھنے والے پناہ گزينوں کو يکساں حقوق فراہم ہو سکيں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کے مطابق اس سال کے آغاز ميں ترکی ميں پناہ ليے ہوئے افغان تارکين وطن کی تعداد لگ بھگ 120,000 تھی۔ وہاں موجود ايرانی پناہ گزينوں کی تعداد تيس ہزار سے زائد ہے جبکہ بقيہ تعداد پاکستانی، عراقی اور صومالی تارکين وطن پر مشتمل ہے۔