’ترکی میں ناکام بغاوت‘ معطّلی اور گرفتاریاں جاری
17 جولائی 2016اشتہار
ترک حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریباً تین ہزار ایسے فوجی اہلکاروں کو حراست میں لیا جا چکا ہے، جن پر اس بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ پانچ جرنیلوں اور کرنل کے عہدے کے انتیس افسران کو بھی ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
انقرہ حکومت نے ستائیس سو ججوں کو بھی معطل کر دیا ہے، جو اندازوں کے مطابق ترکی کے تقریباً پندرہ ہزار ججوں کا بیس فیصد بنتا ہے۔ ججوں کی تنظیم کے سربراہ مصطفیٰ کاراداگ کے مطابق جن ججوں کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ صرف ایسے قانون دان نہیں ہیں، جن پر بغاوت میں شرکت کا شبہ ہے بلکہ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں، جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مصطفیٰ کے بقول ان افراد کا قصور یہ ہے کہ وہ صدر ایردوآن کے مخالف اور ناقد ہیں۔
دوسری جانب ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے امریکا سے مسلمان مبلغ فتح اللہ گؤلن کے ترکی کے حوالے کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایردوآن کے مطابق گؤلن ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کا مرکزی کردار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ترکی اور امریکا واقعی عسکری یا اسٹریٹیجک ساتھی ہیں، تو صدر باراک اوباما کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
گؤلن امریکی ریاست پینسلوانیا میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ 2013ء میں ایردوآن کے ساتھ شدید نوعیت کے اختلافات کے بعد وہ ترکی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ گؤلن نے ایردوآن کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی ہے۔ ان کے بقول ممکن ہے کہ فوجی بغاوت کی یہ کوشش انقرہ حکومت ہی کے ایماء پر کی گئی ہو۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت گؤلن کی حوالگی کی درخواست کا جائزہ لے کر اس پر کوئی مناسب فیصلہ کرے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار بھی کیا کہ اس بغاوت کے حوالے سے اگر ترک حکومت نے امریکا کو ملوث کرنے کی کوشش کی یا اس تناظر میں کسی قسم کی قیاس آرائی کی، تو وہ دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے خطرناک ثابت ہو گی۔ اس دوران کیری نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی انتظامیہ کو اس بارے میں ابھی تک باقاعدہ کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔
اشتہار