ترکی: پولیس احتجاجی اساتذہ پر ٹوٹ پڑی، فاشزم کے خلاف نعرے
9 ستمبر 2016نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ترک حکام نے کُرد عسکریت پسندوں کے ساتھ مبینہ روابط کا الزام عائد کرتے ہوئے گیارہ ہزار سے زیادہ اساتذہ کو معطل کر دیا تھا۔ نو ستمبر جمعے کے روز اساتذہ کی ایک بڑی تعداد اسی معطلی کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئی تھی۔
بتایا گیا ہے کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تیز دھار پانی بھی استعمال کیا۔ اسی دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ مظاہرین ’فاشزم کے خلاف شانہ بشانہ‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
ڈوگان نیوز ایجنسی نے بتایا ہے کہ دو کُرد اکثریتی مشرقی صوبوں تونسیلی اور وان میں مجموعی طور پر 1151 اساتذہ کو اسکولوں میں جانے سے روک دیا گیا ہے۔ روئٹرز کی طرف سے جاری کی جانے والی ویڈیو فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے سینکڑوں کی تعداد میں اساتذہ وزارتِ تعلیم کے صوبائی دفتر کی عمارت کے سامنے جمع ہوئے۔
معطل کیے گئے اساتذہ میں سلیمان گولر بھی شامل تھے، جو ایجوکیشن یونین کے صوبائی سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ یہ معطلی اساتذہ کی جدوجہد پر کیا جانے والا ایک حملہ ہے:’’اس فیصلے کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ نہ کہیں کوئی جرم ہوا ہے ا ور نہ ہی کہیں کوئی مجرم ہے۔ ہم یہ احکامات فوراً واپس لیے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ یہ معطلیاں حکومت کی اُس مہم کا ایک حصہ ہیں، جو وہ ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی PKK کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے۔
کُرد اکثریتی علاقوں میں اٹھائیس بلدیاتی اداروں کے سربراہان کو بھی ہٹانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ترکی میں اتنے بڑے پیمانے پر افراد کو ملازمتوں سے نکالا گیا ہے کہ جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور جس پر انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے بھی سخت احتجاج کیا جا رہا ہے۔
ناکام بغاوت کے بعد سے نافذ ہنگامی حالت کے تحت اگست کے وسط سے دیار باقر صوبے میں احتجاجی مظاہروں پر بھی پابندی عائد ہے۔
دیار باقر کے گورنر آفس نے تین اضلاع کے کوئی ایک درجن سے زیادہ علاقوں میں کرفیو بھی نافذ کرنے کے احکامات جاری کیے۔ سکیورٹی فورسز ان علاقوں میں کُرد عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
کالعدم کردستان ورکرز پارٹی نے آزادی اور خود مختاری کے لیے اپنی جدوجہد تیس سال سے بھی زائد عرصہ پہلے شروع کی تھی اور تب سے اب تک چالیس ہزار سے زیادہ انسان مارے جا چکے ہیں۔