1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تکنیکی ترقی اور ہماری اخلاقی پستی کا سفر

26 اگست 2021

اگر ہم گزشتہ دہائیوں کا آج سے موازنہ کریں تو ہم نے بہت ترقی کر لی ہے، خاص طور پر تکنیکی دنیا میں۔ ہر ہاتھ میں سمارٹ فون ہونا اسی ترقی کی ایک زندہ مثال ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے ساری دنیا ہی ہتھیلی میں سما سی گئی ہو۔

https://p.dw.com/p/3zVTc
Blogerin Sana Zafar
تصویر: Privat

تکنیکی لحاظ سے معلومات کی رسائی سے لے کر دور دراز کے ممالک اور پسماندہ علاقوں میں بات کرنا لمحات میں ممکن ہو جاتا ہے۔ اسی ترقی میں سب سے قابل ذکر اس وقت سوشل میڈیا اور اس کی طاقت ہے۔ سوشل میڈیا نے حقِ رائے دہی کے استعمال کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ اگر کچھ عرصہ پہلے لوگوں تک اپنی رائے پہنچانا مشکل تھا یا زیادہ وقت اور ذرائع درکار  تھے تو اب تو چند لمحوں کی محتاجی بھی نہیں رہی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سہولت ہم مثبت طور پر استعمال کر رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے ذہنوں پر قفل ڈال کر سوشل میڈیا کے نِت نئے رجحانات کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں؟

اکثر اوقات مختلف موضوعات پر بحث چھڑ جاتی ہے اور ہمارا معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ اب خیالات کا اظہار کرنا تو ایک مثبت عمل ہے اور معاشرے کی پہچان بھی بنتا ہے مگر منفی پہلو تب پیدا ہوتا ہے، جب ہم دوسروں کی رائے سننے یا سمجھنےکو مکمل طور  پر رد کر دیتے ہیں۔ اپنا ذہن بند رکھ کر صرف اور صرف اپنی ہی رائے پر بضد رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس آزادی رائے میں ہم اکثر اوقات اخلاقیات کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑ  دیا جاتا ہے۔

 ٹی وی، ریڈیو،  اخبارات اور رسائل جیسے معلوماتی ذرائع پر ہم قواعد و ضوابط کی پابندی کے باعث اخلاق سے گری ہوئی بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر اس آزادی رائے میں کوئی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے ہم اظہار میں شدت پسندی کی حد کو چھو لیتے ہیں۔

سوشل میڈیا نے تقریباً ہر بات پر فوری ردِعمل کا رجحان بھی بڑھا دیا ہے۔ ہر نئی خبر یا پوسٹ کی صداقت جانے بغیر اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنا اور آگے پہنچانا اب ایک 'فطری عمل‘ بن چکا ہے۔ اس معاشرتی سند کو حاصل کرنے کے لیے ہم اپنی اخلاقی اقدار بھی بھول جاتے ہیں۔ پھر چاہے کسی کی دل آزاری ہو، کوئی غیر اخلاقی بات ہو یا کسی کو مذہب کے دائرے سے خارج کرنا ہو، ہم اس آزادی رائے کو اپنا حق بلکہ کبھی کبھار اپنا فرض سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔

یہ آزادی بہت سے نفسیاتی مسائل میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ خاص کر ہماری نئی نسل ایک مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ اس ذہنی دباؤ کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر دوسرے لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنے کی غرض سے رجحانات کی اندھی تقلید کی جاتی  ہے۔ ایسے رجحانات جو کبھی کبھار  ذہن قبول نا بھی کرے تو  بھی اس وقتی واہ واہ کے لیے انسان یہ سب کر گزرتا ہے۔

یہاں 'صحیح اور غلط‘ کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ ہم اس تکنیکی ترقی کو انفرادی بہتری اور معاشرتی سلجھاؤ کے لیے استعمال کر سکیں نا کہ اس سے نفسیاتی مسائل جنم لیں اور شدت پسندی میں اضافہ ہو۔