تہران میں توڑ پھوڑ کے دوران سات افراد ہلاک ہوئے، سرکاری ریڈیو
16 جون 2009جمعہ کے روز ہونے والے ایرانی صدارتی انتخابات میں سرکاری نتائج کے مطابق تقریبا دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیابی پہلے ہی سے صدر کے عہدے پر فائز چلے آرہے قدامت پسند صدارتی امیدوار محمود احمدی نژاد کو ملی تھی جبکہ اپوزیشن کے امیدوار اور سابق وزیر اعظم میر حسین موسوی کےحامیوں کا الزام ہے کہ اصل فاتح اصلاحات پسند سیاستدان موسوی ہیں جنہیں ریاستی ڈھانچے کی طرف سے مبینہ دھاندلیوں کے نتیجے میں دانستہ منصوبہ بندی کے ذریعے ناکامی سے دوچار کیا گیا۔
انتخابی نتائج کے خلاف موسوی کے حامیوں کی طرف سے ایران میں احتجاجی مظاہرے ویک اینڈ پر ہی شروع ہو گئے تھے مگر پیر کے روز یہ احتجاج اس وقت خونریز شکل اختیار کرگیا جب ایران کے اعلیٰ ترین مذہبی رہنما آیت اللہ علی خامنائی کی وفادار سمجھی جانے والی اور نیم فوجی دستوں کی سی حیثیت والی ایک مسلح ملیشیا کے ارکان نے تہران شہر کے ایک حصے میں ہزار ہا مظاہرین کے ایک بے قابو ہوجانے والے حصے پر گولی چلا دی تھی۔
اس بارے میں ایران کے زیادہ تر میوزک پروگرام نشر کرنے والے اور ٹریفک سے متعلق معلومات کی ترسیل کا کام کرنے والے ریاستی ریڈیو پیام نے آج منگل کی صبح اپنی نشریات میں بتایا کہ پیر کے روز میر حسین موسوی کے حامی ہزاروں مظاہرین نے اپنے احتجاج کے دوران ایرانی دارالحکومت میں ایک فوجی چوکی پر حملہ کرنے کے علاوہ شہر میں آزادی چوک کے نواح میں عوامی املاک کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
ریڈیو پیام نے اپنی نشریات میں ناکام صدارتی امیدوار موسوی کے حامی مشتعل سیاسی کارکنوں کے لئے "ٹھگوں" کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ بدامنی کے اس ماحول میں مزید عوامی املاک کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اس سرکاری ریڈیو نے نیم فوجی دستوں کی طرف سے فائرنگ کا کوئی ذکر کئے بغیر بتایا کہ بدامنی کے ان واقعات میں "سات افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہو گئے۔"
تہران میں مقامی ذرائع نے خبر ایجنسی AFP کوبتایا کہ شہر میں ایمرجنسی سروسز کے شعبے نے تصدیق کی ہے کہ پیر کے روز خونریز ثابت ہونے والے ہنگاموں میں کل آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم اس فرانسیسی خبر رساں ادارے کی طرف سے شہر میں طبی شعبے کی اعلیٰ انتظامی شخصیات کے ساتھ رابطے پرAFP کو بتایا گیا کہ پیر کے روز اپوزیشن کارکنوں کی احتجاجی ریلی کے دوران کوئی ایک شخص بھی ہلاک نہیں ہوا۔
رپورٹ: خبررساں ادارے، ادارت: مقبول ملک