جادوگری کے بارے میں دَس حیرت انگیز حقائق
جرمنی کے شہر بون میں ان دنوں جادوئی کرتب دکھانے والوں کا سالانہ اجتماع جاری ہے۔ دو ہفتے تک جاری رہنے والے اس اجتماع کے دوران یورپ بھر کے فنکار اپنے کرتب دکھا رہے ہیں۔
جادو کا فن
جادوئی کرتب دکھانے والے ہر فنکار کے اپنے راز ہوتے ہیں، جنہیں وہ ایک ایک کر کے اپنے ہَیٹ سے برآمد کرتا ہے۔ ہے تو یہ نظر کا دھوکا لیکن اس کمال کی منزل تک پہنچنے سے پہلے ایک طویل راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی اچھے کرتب میں ہاتھ کی صفائی اور تکنیک کے ساتھ ساتھ ٹھیک ٹھیک منصوبہ بندی بھی ضروری ہوتی ہے۔
جادوگری کا باقاعدہ امتحان
جرمنی میں ’جادوگروں‘ کی سب سے بڑی تنظیم ’میجک سرکل‘ تقریباً دو ہزار آٹھ سو ارکان پر مشتمل ہے۔ یہ تنظیم جادوئی کرتبوں کے بارے میں معیارات اور ضوابط کی نگرانی کرتی ہے۔ اَسّی مختلف مقامی میجک سرکلز میں سے کسی ایک کا داخلہ ٹیسٹ پاس کرنے والے ہی بڑے ’میجک سرکل‘ کے رکن بن سکتے ہیں۔ ہر تین سال بعد جادوگری کی جرمن چیمپئن شپ ہوتی ہے۔ ہر سال کسی فنکار کو سال کا بہترین جادوگر چُنا جاتا ہے۔
کرتب کا راز
جادوگری میں مرکزی اہمیت ایسے عوامل کی ہوتی ہے، جن کی منطقی طور پر وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ ’میجک سرکل‘ کے رکن بننے والے فنکار باقاعدہ تنظیم کے منشور پر یہ حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ اپنے کرتب کا راز کسی کو نہیں بتائیں گے کیونکہ جب کسی جادوئی کرتب کا راز کھل جاتا ہے تو اُس کی سنسنی بھی ختم ہو جاتی ہے اور اُس جادوگر کی معاشی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
جادوئی منتر
جرمنی میں ایک مشہور جادوئی منتر ’آبرا کادابرا‘ ہے۔ بدقسمتی اور بیماری کے خلاف مزاحمت اور خوش قسمتی کو دعوت دینے کے لیے استعمال ہونے والا یہ منتر اتنا پرانا ہے کہ اس کے ابتدائی استعمال کے شواہد تیسری صدی عیسوی میں بھی ملتے ہیں۔ جرمنی میں تحریری شکل میں جادوئی منتروں کا سب سے پرانا نسخہ غالباً آٹھویں صدی عیسوی کا ہے۔
سب سے بڑا شو
جرمنی میں جادوئی کرتب دکھانے والے دو فنکار آندریاز اور کرسٹیان رائنلٹ حقیقی بھائی ہونے کے ناتے ’ایہرلِش برادرز‘ کہلاتے ہیں اور پاپ اسٹارز کی طرح کی مقبولیت کے حامل ہیں۔ گزشتہ سال گرمیوں میں جرمن شہر فرینکفرٹ کے فٹ بال اسٹیڈیم میں ان بھائیوں کے ایک شو کو اڑتیس ہزار سے زیادہ تماشائیوں نے دیکھا تھا، جو کہ ایک عالمی ریکارڈ تھا۔ یہ بھائی تین بار ’سال کے بہترین جادوگر‘ بھی چُنے گئے۔
آری سے دو حصوں میں بٹی خاتون
ایک عورت کو ایک ڈبے میں بند کرنے کے بعد اُس ڈبے کو آری سے کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پھر یہی عورت اچھی بھلی حالت میں شائقین کے سامنے آ جاتی ہے۔ یہ جادوئی کرتب شائقین میں بے حد مقبول ہے اور سب سے پہلے 1921ء میں امریکا میں دکھایا گیا۔ تب سے دنیا بھر کے جادوگر نت نئے انداز میں یہ کرتب ضرور دکھاتے ہیں۔ اس تصویر میں یہی کرتب ایک مرد کے ساتھ دکھایا جا رہا ہے۔
جادوئی کرتبوں میں جان کا بھی خطرہ
کئی فنکار خود کو زنجیروں میں جکڑتے ہیں اور پھر ایک قلیل وقت کے اندر اندر مشکل حالات میں خود کو زنجیروں سے آزاد کرواتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات میں اسٹیج پر کئی حادثات بھی ہو چکے ہیں۔ کسی پستول سے چلائی گئی گولیوں کو پکڑنے کا کرتب دکھانے کی کوشش کرنے والے کئی جادوگر جان کی بھی بازی ہار گئے۔ جادوگری بہرحال خطرناک بھی ہے۔
عالمی شہرت کے حامل جرمن فنکار
زیگفریڈ فِش باخر اور روئے ہورن ’زیگفریڈ اینڈ روئے‘ کے نام سے پوری دنیا میں ببر شیروں اور سفید ٹائیگرز کے ساتھ کرتب دکھانے کے لیے مشہور ہیں۔ لاس ویگاس میں اُن کے شو کو آج تک دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے مہنگا اور بڑا شو سمجھا جاتا ہے۔ 2003ء میں ایک ٹائیگر کے ہاتھوں روئے ہورن شدید زخمی ہو گئے، جس کے بعد اس جرمن فنکار جوڑے نے اسٹیج کو خیر باد کہہ دیا۔
جادوگروں کی عالمی تنظیم
جادوئی کرتب دکھانے والے پوری دنیا میں موجود ہیں۔ ان فنکاروں کی سب سے بڑی تنظیم FISM کہلاتی ہے، جس میں پچپن ملکوں کے تقریباً ساٹھ ہزار فنکاروں کو رکنیت حاصل ہے۔ یہ تنظیم ہر تین سال بعد عالمی چیمپئن شپ کا اہتمام کرتی ہے، جس میں دنیا بھر کے جادوگر مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں۔
نئے جادوگر
بہت سے لوگ جادگری سیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے کوئی باقاعدہ تعلیم و تربیت نہیں ہوتی۔ بنیادی تربیت مختلف ’میجک اسکولوں‘ میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ جادوگر وقتاً فوقتاً مختلف سیمیناروں اور ورکشاپس میں جادوگری میں دلچسپی رکھنے والے نوعمروں اور نوجوانوں کو کرتبوں کی اصل حقیقت بتاتے رہتے ہیں۔ نئے فنکار محض بار بار کی مشق سے ہی اچھے ’جادوگر‘ بن سکتے ہیں۔