جارجیا کے اپوزیشن لیڈر پارلیمانی انتخابات میں کامیاب
2 اکتوبر 2012جارجیا کے ارب پتی اپوزیشن لیڈر بڈ زینا ایوانشویلی اور اُن کے حامی گزشتہ روز پارلیمانی انتخابات کے ووٹنگ ختم ہوتے ہی اپنی پارٹی کی فتح کا دعویٰ کر چکے تھے اور تبلیسی کی سڑکوں پر نعرے بازی کرتے ، اپنے جھنڈے لہراتے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے نظر آ رہے تھے۔ حالانکہ پولنگ ختم ہونے کے بعد ابتدائی طور پر صدر ساکاشویلی کی یونائیٹیڈ نیشنل موومنٹ نے اپنی فتح کا دعویٰ کیا تھا۔
آج منگل کی صبح تبلیسی کی فضا میں ایک غیر معمولی خوشگواری کا احساس پھیلا ہوا تا۔ حالانکہ جارجیا کے عوام ابھی نہیں جانتے کہ ان کا مستقبل کیسا ہوگا۔ تاہم ملکی سیاسی فضا میں تبدیلی ان کے لیے سب سے اہم اور خوشگوار امر ہے۔
’میں بہتری چاہتی ہوں۔ قوانین میں بہتری تاکہ ہمارے بچے خوشگوار زندگی گزار سکیں۔ ہمیں نہیں پتہ کہ ایوانشویلی کا رویہ کیسا ہوگااور وہ عوام کے لیے کیا کریں گےتاہم لوگ بہت پُرامید ہیں‘۔ جارجیا کے زیادہ تر باشندوں کا اس وقت یہی کہنا ہے۔
کل کے الیکشن کے ابتدائی سرکاری نتائج سے پتہ چل گیا تھا کہ اپوزیشن لیڈر ایوانشویلی 54 فیصد ووٹوں کے حصول کے ساتھ پارلیمانی انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار ہو گئے ہیں اور ان کے مخالف صدر ساکاشویلی نے 41 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ دریں اثناء بین الاقوامی مبصرین نے بھی جارجیا کے پارلیمانی انتخابات کے عمل کی شفافیت اور خوشگوار ماحول میں انجام پانے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ووٹروں نے آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ کونسل آف یورپ، یورپی پارلیمان اور نیٹو کی آرگنائزیشن فار سکیورٹی اینڈ کوپریشن کے نمائندوں پر مشتمل مبصرین کے مشن کے سربراہ ٹونینو پکیولا کے بقول،’ دو مختلف سمت کی پارٹیوں کے مابین مقابلے کے لیے چلائی جانے والی مہم کے باوجود جارجیا کے عوام نے کھل کر اپنی خواہش کا اظہار بیلٹ باکس کے ذریعے کیا ہے‘۔
اپوزیشن لیڈر ایوانشویلی گزشتہ شب ہی اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے کہ چکے ہیں،’میرا خیال ہے آج جارجیا کی تاریخ میں ایک مثال قائم ہوئی ہے۔ ہماری طویل تاریخ میں پہلی بار اقتدار کی منتقلی بذریعہ انتخاب عمل میں آئی ہے‘۔
انتخابات کے نتائج کی روشنی میں ساکاشویلی نے سرکاری ٹیلی وژن پر ایک بیان دیتے ہوئے کہا،’ جارجیا کی پارلیمانی اکثریت اب ایک نئی حکومت تشکیل دے گی اور آئینی رو سے بحیثیت صدر میں پارلیمان کے تمام کاموں کو کامیابی سے پورا کرنے اور سہل بنانے میں بھرپور تعاون کروں گا‘۔
یاد رہے کہ 1991ء میں قفقاذ کی اس جمہوریہ کے سابق سویت یونین سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اب تک پہلی بار الیکشن کے ذریعے اقتدار کا انتقال ایک پر امن طریقے سے ممکن ہوا ہے۔
km/ij/Reuters