1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتجاپان

جاپانی اداروں ہونڈا اور نسان کا تاریخی ادغام، مذاکرات شروع

24 دسمبر 2024

جاپان کے عالمی سطح پر معروف دو بڑے کار ساز اداروں ہونڈا اور نسان نے اپنے تاریخی ادغام کے لیے مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو گاڑیوں کی فروخت کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا کار ساز ادارہ وجود میں آ جائے گا۔

https://p.dw.com/p/4oYIA
نسان کے سربراہ ماکوتو یوچیدا، بائیں، اور ہونڈا کمپنی کے صدر توشی ہیرو میبے ٹوکیو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
نسان کے سربراہ ماکوتو یوچیدا، بائیں، اور ہونڈا کمپنی کے صدر توشی ہیرو میبے ٹوکیو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: Kyodo/REUTERS

ہونڈا اور نسان کار سازی کی صنعت کے جاپان سے تعلق رکھنے والے دو ایسے بڑے ادارے ہیں، جو اب تک ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں لیکن ان دونوں کو ہی، جاپان اور دنیا کے دیگر ممالک کے زیادہ تر کار ساز اداروں کی طرح چین میں بنائی جانے والی الیکٹرک گاڑیوں کی طرف سے مسلسل بڑھتے ہوئے کاروباری مقابلے کا سامنا ہے۔

چینی کار ساز کمپنیوں کا جرمن مارکیٹ میں مشروط خیر مقدم

ان حالات میں ہونڈا اور نسان کی قیادت نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے اپنے اپنے اداروں کے ایک دوسرے میں کاروباری ادغام کا نہ صرف سوچا بلکہ اس سلسلے میں تاریخی نوعیت کے مذاکرات کا باقاعدہ آغاز بھی کر دیا۔ ان دونوں جاپانی کمپنیوں نے ایک ایسے بنیادی معاہدے پر دستخط بھی کر دیے ہیں، جس کے تحت وہ آپس میں ادغام کے مقصد سے باقاعدہ مذاکرات بھی شروع کر رہی ہیں۔

جاپانی کار ساز ادارہ ٹویوٹا اس شعبے میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے
جاپانی کار ساز ادارہ ٹویوٹا اس شعبے میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہےتصویر: Tomohiro Ohsumi/Getty Images

دنیا کی تیسری سب سے بڑی کار ساز کمپنی

اگر ہونڈا اور نسان کے یہ کاروباری مذاکرات کامیاب رہے، تو ایک ایسا نیا صنعتی کاروباری ادارہ وجود میں آ جائے گا، جو جاپان ہی کی ٹویوٹا کمپنی اور جرمنی کی فوکس ویگن کے بعد عالمی سطح پر تیسرا سب سے بڑا کارساز ادارہ ہو گا۔

ہونڈا اور نسان کی طرف سے ٹوکیو میں پیر 23 دسمبر کو کیے گئے ایک اعلان کے مطابق نسان کمپنی ایک اور جاپانی ادارے مٹسوبیشی موٹرز کے اکثریتی حصص کی مالک بھی ہے اور مٹسوبیشی موٹرز کی طرف سے بھی غور کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی اس ممکنہ لیکن تاریخی کاروباری ادغام میں شامل ہو جائے۔

پاکستان میں تیار کردہ پہلی ہائبرڈ الیکٹرک کار کی لانچنگ

ہونڈا کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر توشی ہیرو میبے نے کہا، ''چینی کار مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو حاصل ہونے والے عروج اور کئی دیگر نئے اداروں کے مارکیٹ میں آنے سے کار سازی کی صنعت بہت زیادہ بدل چکی ہے۔‘‘

فوکس ویگن کی ایک گاڑی پر لگا کمپنی کا لوگو
جرمن کمپنی فوکس ویگن دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کار ساز ادارہ ہےتصویر: Jens Schlueter/AFP via Getty Images

توشی ہیرو میبے کے بقول، ''ہمیں اپنی صلاحیتوں کو بڑھاتے ہوئے ان اداروں کا 2030ء تک کامیابی سے مقابلہ کرنا ہے، ورنہ ہم یقینی طور پر ہار جائیں گے۔‘‘

فوسل فیول کے استعمال سے بتدریج دوری

ہونڈا جاپان کی ٹویوٹا کے بعد دوسری سب سے بڑی اور نسان تیسری سب سے بڑی کار ساز کمپنیاں ہیں۔ ان دونوں اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں نے اتفاق کیا ہے کہ وہ آئندہ برس جون تک ایک حتمی ادغامی معاہدہ طے کر لیں گے۔

اس معاہدے کے طے پا جانے کے بعد جو نئی ہولڈنگ کمپنی وجود میں آئے گی، اس کی زیادہ سے زیادہ اگست 2026ء تک ٹوکیو سٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی خرید و فروخت کے لیے لسٹنگ بھی ہو جائے گی۔

چینی کمپنی بی وائی ڈی کا شارک چھ ماڈل کا ایک نیا الیکٹرک پک اپ ٹرک
چینی کمپنی بی وائی ڈی کا شارک چھ ماڈل کا ایک نیا الیکٹرک پک اپ ٹرکتصویر: Anusak Laowilas/NurPhoto/IMAGO

جرمنی میں الیکٹرک کاروں کی سولر پاور سے چارجنگ، نئی فنڈنگ

یہ بھی طے پایا ہے کہ ادغام کے بعد نئی کمپنی کی انتظامیہ کی قیادت ہونڈا ہی کے پاس رہے گی جبکہ دونوں ذیلی اداروں کے اپنے اپنے کاروباری برانڈ بھی باقی رہیں گے۔

باہمی ادغام کا تہیہ کر چکی دونوں کمپنیوں کا ارادہ ہے کہ وہ آئندہ فوسل فیول سے چلنے والی گاڑیوں سے بتدریج دوری اختیار کرتے ہوئے الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری پر زیادہ توجہ دیں گی۔

چین گزشتہ برس گاڑیاں برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا

ہونڈا اور نسان دونوں کو ہی اس شعبے کی کئی دیگر غیر ملکی کمپنیوں کی طرح گزشتہ برس چینی آٹو موبائل مارکیٹ میں اپنے حصے سے کافی زیادہ حد تک محروم ہونا پڑ گیا تھا۔

اس کی وجہ خاص طور پر چینی کمپنی بی وائی ڈی (BYD) کو حاصل ہونے والا کاروباری عروج اور ان الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیاں تیار کرنے والے دیگر اداروں کی طرف سے سخت کاروباری مقابلہ بنے تھے، جن میں امریکی ارب پتی ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا بھی شامل ہے۔

جاپان میں ٹوکیو سٹاک ایکسچینج کے نام کی تختی
ہونڈا اور نسان کے ادغام سے بننے والی نئی کمپنی کی اگست 2026ء میں ٹوکیو سٹاک ایکسچیج میں لسٹنگ ہو جائے گیتصویر: Morio Taga/Jiji Press/dpa/picture alliance

اس کے علاوہ چینی حکومت نے بھی اپنے ہاں الیکٹرک گاڑیوں یا EVs کی پیداواری صنعت کی جس گرمجوشی سے عملی حمایت کی، اس کے نتیجے میں چین پہلی مرتبہ جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 2023ء میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ کاریں برآمد کرنے والا ملک بن گیا تھا۔

نسان کو درپیش مالیاتی مشکلات

نسان کے سربراہ ماکوتو یوچیدا کے مطابق ان کے ادارے نے ہونڈا کے ساتھ اپنے ادغام کا اس لیے سوچا کہ ہونڈا کمپنی اس صنعت میں اپنی کاروباری جدت اور لچک کے وجہ سے ایک منفرد مقام کی حامل ہے۔ اس کے علاوہ ہونڈا کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ کمپنی ''مستقبل سے متعلق کسی بھی بحرانی صورت حال کا قبل از وقت اندازہ لگا سکنے کی اہل بھی ہے۔‘‘

یورپی یونین: تیرہ سال بعد کاروں سے زہریلی گیسوں کا اخراج صفر

ماکوتو یوچیدا کے الفاظ میں، ''کار سازی کی صنعت کا آئندہ کاروباری ماحول بالکل مختلف ہو گا۔ اگر ہم نے وقت کے ساتھ خود کو بدلنے کی ہمت نہ کی، تو ہم مستقبل کی اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔‘‘

جرمنی کا فوکس ویگن گروپ کاروں کے کئی برانڈز کا مالک ہے
جرمنی کا فوکس ویگن گروپ کاروں کے کئی برانڈز کا مالک ہےتصویر: Uli Deck/picture-alliance

مرسیڈیز نے آٹو پائلٹ کاروں کی فروخت شروع کر دی

جہاں تک جاپانی کار ساز صنعت میں بڑے اداروں کی پیداوار کا تعلق ہے، تو گزشتہ برس ٹویوٹا نے 11.5 ملین گاڑیاں تیار کی تھیں۔ ٹویوٹا کمپنی ہونڈا اور نسان کے ادغام کے بعد بھی جاپان کی سب سے بڑی کار ساز کمپنی رہے گی۔ اس لیے کہ 2023ء میں ہونڈا، نسان اور مٹسوبیشی نے مل کر بھی آٹھ ملین سے کچھ ہی زیادہ تعداد میں گاڑیاں تیار کی تھیں۔

مستقبل کے امکانات

نسان کو اس وقت کافی زیادہ مالی مشکلات کا سامنا بھی ہے۔ یہ جاپانی کمپنی فرانسیسی کار ساز ادارے رینو گروپ کی کاروباری اتحادی بھی ہے۔ لیکن رینو کے ساتھ نسان کا معاہدہ پہلے ہی زیرغور ہے اور قانوناﹰ ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔

جہاں تک ہونڈا اور نسان کے ممکنہ ادغام کے بعد کی صورت حال کا سوال ہے، تو یوں عالمی سطح پر تیسری ایسی بڑی کار ساز کمپنی وجود میں آ سکے گی، جس کو اس کی گاڑیوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی مجموعی آمدنی 30 ٹریلین ین (191 بلین ڈالر) ہو گی اور جس میں سالانہ تین ٹریلین ین (19.1 بلین ڈالر) کا کاروباری منافع بھی شامل ہو گا۔

م م /ا ب ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

بی وائی ڈی کاروں سے لدا میگا بحری جہاز جرمنی پہنچ گیا