جرمن تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل خواتین کا مصر میں ’کرئیر کمپاس‘
19 نومبر 2012کرئیر کمپاس کے سلسلے کی ابتدائی ورکشاپ قاہرہ میں دریائے نیل کے کنارے واقع ہوٹل گرینڈ نائل ٹاورز میں منعقد ہوئی، جس میں مصر کی متعدد جامعات کے پروفیسرز اور طالبات کے علاوہ قاہرہ میں قائم جرمن سفارت خانے اور جرمن اکیڈمک ایکسچیج پروگرام DAAD کے علاوہ اقوام متحدہ کے خواتین سے متعلق ادارے یو این ویمن سے وابستہ افراد کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
اس ابتدائی ورکشاپ میں اساتذہ اور طالبات سے ملک میں خواتین کی مختلف شعبوں میں پیشہ وارانہ خدمات کے راستے میں حائل رکاوٹوں پر گفتگو کی گئی اور ملک کی مختلف جامعات کے شعبہ ہائے جات کے ساتھ مینٹورشپ پروگرامز کے آغاز پر اتفاق کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت جامعات اپنے اپنے شعبہ ہائے جات میں ایسی طالبات کو پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں ان کی تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے ملازمتوں کے تیاری اور مختلف کاروباری اداروں سے ان کے تعلیمی دور ہی میں روابط کی بنیاد رکھیں گے، تاکہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد طالبات کو ملازمتوں کے حصول میں مشکلات درپیش نہ ہوں۔ یہ پروگرام جرمن دفتر خارجہ اور بیرون ممالک سے ثقافتی ربط کے جرمن ادارے ifa کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔
اس پروگرام میں فیسیلیٹیٹر کی ذمہ داری انجام دینے والی ڈاکٹر انگرِڈ شرانر کے مطابق ملازمتوں کے مواقع کے اعتبار سے ترقی پزیر ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم تر مواقع میسر آتے ہیں۔ انگرِڈ شرانر کا تعلق سوئٹزرلینڈ سے ہے اور انہوں نے جرمنی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے جبکہ آج کل وہ آسٹریلیا کی ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی میں معاشیات اور بزنس کی تعلیم دیتی ہیں۔
کریئر کمپاس پروگرام کی مقامی مینیجر نوحہ طارق، جو اقوام متحدہ کے ادارے یو این والنٹیررز سے وابستہ ہیں، نے کانفرنس کے آغاز میں پروگرام کا تعارف پیش کرتے ہوئے، جرمن دفتر خارجہ، ایفا اور دیگر جرمن ادارے کا شکریہ ادا کیا۔ اس پروگرام کی رینجل کوآرڈینیٹر پروفیسر ڈاکٹر ہالہ عارف تھیں، جو جرمنی کی گوٹنگن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد گرشتہ دو دہائیوں سے قاہرہ یونیورسٹی میں ادویات سازی اور اس سے متعلق تحقیقی سرگرمیوں کی معلم ہیں۔ ہالہ عارف نے کہا کہ مصر میں ایسی بہت سی خواتین موجود ہیں، جو جرمنی سے تعلیم حاصل کر کے لوٹی ہیں اور ایسی ہی خواتین اس پروگرام میں زیادہ شامل ہوں گی، تاکہ مصری طالبات کو مستقبل کی منصوبہ بندی میں معاونت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جرمن تعلیمی اداروں تک رسائی کو بھی آسان بنایا جا سکے۔
اس موقع پر مختلف جامعات کی طالبات نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے خود کو درپش سماجی اور معاشرتی مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ماضی کے مقابلے میں صورتحال خاصی بہتر ہوئی ہے، تاہم اب بھی اس میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
قاہرہ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات سے تعلق رکھنے والی طالبہ ہدیل محمود خطاب نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ایک طرف تو کاروباری اداروں میں مردوں کی خواتین پر ترجیح دی جاتی ہے اور دوسری جانب کاروباری اداروں میں بھی ایسا ماحول پیدا نہیں کیا جاتا کہ زیادہ سے زیادہ خواتین معاشرتی دھارے میں شامل ہو کر ملک کی خدمت کریں۔ انہوں نے زور دیا کہ بین الاقوامی میڈیا اس سلسلے میں مصر میں جمہوریت اور لبرل روایات کا فروغ عمل میں ملک میں خواتین کی ملازمتوں سے متعلق راہ ہموار کر سکتا ہے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: شامل شمس