جرمن حکومت کا ملک سے بےخانمانی کے مکمل خاتمے کا منصوبہ
7 مئی 2024بہت سی ملک گیر خیراتی امدادی تنظیموں نے چانسلر اولاف شولس کی حکومت کے اس منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے، لیکن ساتھ ہی ماہرین کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے اعلان کردہ اس پلان کے اب تک کے خد و خال کافی مبہم اور غیر واضح ہیں۔
ڈِرک دیامارسکی ایک ایسے شہری ہیں، جو گزشتہ دو عشروں سے جزوی طور پر یا تو بے گھر افراد کے لیے بنائے گئے ہنگامی شیلٹر ہومز میں رہتے رہے ہیں یا پھر کسی نہ کسی سڑک کے کنارے کسی فٹ پاتھ پر۔ وہ کہتے ہیں کہ بے گھر ہونا کوئی ایسی بات نہیں ہوتی، جس سے ''آپ صرف ایک جھٹکے میں ہی نجات حاصل کر لیں۔‘‘
جرمنی میں بائیس لاکھ بچوں کے غربت کا شکار ہو جانے کا خدشہ
دیامارسکی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ''بیس سال تک بےگھر ہونا اور پھر ایسے ہی کہیں نہ کہیں رہتے رہنا، یہ میرے لیے کئی حوالوں سے بہت بڑا سبق تھا۔ یہاں تک کہ میں خود بھی اپنے ساتھ امتیازی رویہ رکھتا تھا اور اپنے بارے میں میری سوچ بھی تحقیر آمیز تھی۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایسی صورت حال کا سامنا تو کسی کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے اور پھر اس سے باہر نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘‘
ڈِرک دیامارسکی اب 'فرائی شٹَیٹر آن لائن سائٹنگ‘ نامی اخبار کے کارکنوں میں شامل ہیں۔ یہ ایک ایسا مقامی اخبار ہے، جسے جرمن صوبے لوئر سیکسنی کے ایک چھوٹے سے قصبے فرائی اشٹٹ میں بےگھر افراد ہی تیار کرتے ہیں۔ دیامارسکی ایک ایسی تنظیم کے رکن بھی ہیں، جو جرمنی میں بےگھر افراد کو ان کی سیاسی آواز دیتی ہے۔ اس تنظیم کا نام ہے: ''بےخانماں انسانوں کی خود نمائندگی۔‘‘
کچرے سے غذائی اشیا نکال کر کھانےکی اجازت، کیا فوڈ ویسٹ میں کوئی کمی آئے گی؟
اس جرمن شہری کا کہنا ہے کہ بےگھر ہو جانے والے انسانوں کے لیے کسی گھر کی تلاش کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی ذات اور سماجی حیثیت پر لگ جانے والا داغ ہوتا ہے۔ ان کے بقول، ''اگر آپ بےخانماں ہونے کی حالت سے نکلنا اور اپنے لیے کوئی مناسب رہائش کرائے پر حاصل کرنا بھی چاہیں، تو بھی جو سوال آپ سے سب سے پہلے پوچھا جاتا ہے، وہ یہی ہوتا ہے: اس وقت آپ کہاں رہتے ہیں؟ اور اگر آپ اپنے ممکنہ مالک مکان کو یہ بتا دیں کہ آپ بےگھر افراد کی کسی پناہ گاہ میں رہتے ہیں، تو کرائے پر کوئی فلیٹ حاصل کرنے کا رہا سہا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔‘‘
جرمنی میں بڑھتی ہوئی غربت، فوڈ بینکس کی حالت بد سے بدتر
جرمنی میں بےگھر انسانوں کی مجموعی تعداد
جرمنی میں مناسب کرایوں پر گھروں کی دستیابی میں قلت کے باعث گزشتہ چند برسوں کے دوران بےگھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں بالکل درست اور تازہ ترین حقیقی اعداد و شمار تو دستیاب نہیں، لیکن جرمن حکومت کا اندازہ ہے کہ ملک میں بےخانماں انسانوں کی مجموعی تعداد پونے چار لاکھ کے قریب ہے۔
بےگھر افراد کی مدد کے لیے قائم کردہ وفاقی حکومت کے ورکنگ گروپ کے مطابق جرمنی میں بےخانماں انسانوں کی تعداد قریب چھ لاکھ ہے اور ان میں سے تقریباﹰ 50 ہزار سڑکوں پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس تعداد میں ایسے تمام افراد شامل ہیں، جن کا اپنا کوئی مکان نہیں ہوتا یا جن کے پاس باقاعدہ کرائے نامے والی کوئی رہائش گاہ نہیں ہوتی۔
جرمنی کی جیلوں میں غربت، مقروض قیدی رہائی کے بعد مقروض تر
قانوناﹰ جرمن حکومت اور مقامی حکومتی ادارے اس امر کے پابند ہیں کہ وہ سڑکوں پر رہنے والے انسانوں کو ہنگامی بنیادوں پر کسی پناہ گاہ یا شیلٹر ہوم میں جگہ مہیا کریں۔ لیکن بہت سے بے خانماں انسان ایسے شیلٹر ہومز میں رہنے کے بجائے کسی نہ کسی سڑک کے کنارے شب بسری کو ترجیح دیتے ہیں۔
بےخانمانی کا خاتمہ کیسے؟
برلن میں وفاقی جرمن حکومت نے اپریل کے آخر میں اس مسئلے کے تدارک کے لیے ایک بہت بڑے منصوبے کا اعلان کیا، جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا ہے۔ اس پلان کے تحت ملک میں بےخانمانی 2030ء تک ختم کر دی جائے گی۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی وفاقی حکومت نے ایسی کوئی باقاعدہ اور طویل المدتی پالیسی دستاویز تیار کی ہے۔
جر منی: امیر ملک میں غربت کیسی ہوتی ہے؟
کُل 31 نکات پر مشتمل اس منصوبے کی تفصیلات وفاقی وزارت برائے ہاؤسنگ، شہری ترقی اور تعلیم نے جاری کیں۔ اس منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو اس لیے مالی وسائل مہیا کرے گی کہ وہ سماجی یکجہتی کی بنیاد پر مہیا کی جانے والی مزید بہت زیادہ سوشل ہاؤسنگ سہولیات کا انتظام کریں، ہاؤسنگ کے شعبے میں پائے جانے والے امتیازی رویوں کا تدارک کیا جائے اور بےگھر انسانوں کی قانون کے مطابق سماجی تحفظ اور علاج معالجے کی سہولیات تک رسائی میں بھی نتیجہ خیز عملی مدد کی جائے۔
اس بارے میں چانسلر شولس کی جماعت سو شل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی ہاؤسنگ کی وفاقی وزیر کلارا گائیوِٹس نے ایک بیان میں کہا، ''بےخانمانی کے خلاف جنگ میں اہم ترین بات ایسی رہائشی سہولیات کی فراہمی ہے، جن کے کرایوں کا آسانی سے متحمل ہوا جا سکے۔‘‘
جرمنی میں تقریباﹰ سترہ فیصد باشندے غربت کا شکار
کلارا گائیوِٹس کے الفاظ میں، ''اس سلسلے میں ملک گیر نوعیت کے ضابطوں سے متعلق وفاقی حکومت کی سطح پر تیار کردہ پلان سے بےگھر انسانوں کی مدد بھی کی جا سکے گی اور جرمن سول سوسائٹی کی شدید خواہش پر عمل درآمد بھی کیا جا سکے گا، ایسے تمام شہری حلقوں کی خواہشات پر عمل درآمد جو بےخانماں انسانوں کے دکھ سمجھتے ہیں اور ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔‘‘
وفاقی جرمن حکومت اس منصوبے پر کتنی جامع سطح پر عمل کرنا چاہتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف سوشل ہاؤسنگ کی مد میں ہی 2027ء تک برلن حکومت تمام 16 وفاقی صوبوں کو مجموعی طور پر 18.15 بلین یورو مہیا کرنے کا وعدہ کر چکی ہے۔
م م / ک م (بین نائٹ)