جمال خاشقجی قتل: سعودی عرب ميں پانچ افراد کو سزائے موت
23 دسمبر 2019سعودی عرب ميں ايک عدالت نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے سعودی نژاد صحافی جمال خاشقجی کے قتل ميں ملوث ہونے پر پانچ افراد کو سزائے موت اور تين مزيد کو قيد کی سزا سنا دی ہے۔ يہ خبر سرکاری ٹيلی وژن ’الاخباريہ‘ پر آج بروز پير نشر کی گئی۔ تمام مجرمان کو سزاؤں کے خلاف اپيليں دائر کرنے کا اختيار حاصل ہے۔
جمال خاشقجی اکتوبر سن 2018 ميں چند دستاويزات حاصل کرنے کے ليے استنبول ميں سعودی قونصل خانے ميں داخل ہوئے تھے ليکن اس کے بعد وہ وہاں سے زندہ باہر نہ نکلے۔ جمال خاشقجی کی لاش بھی آج تک نہيں مل سکی۔ اس قتل کے حوالے سے ابتداء ميں رياض حکومت لاعلمی کا دعوٰی کرتی رہی تاہم بعد ازاں يہ تسليم کر ليا گيا کہ خاشقجی کو چند باغی اہلکاروں نے قونصل خانے ميں قتل کيا اور لاش کو ٹھکانے لگا ديا گيا۔ کئی حلقوں ميں اس قتل کی ذمہ داری ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر عائد کی جاتی رہی تاہم انہوں نے اور رياض حکومت نے ولی عہد يا اعلٰی قيادت کے کسی بھی رکن کے اس واردات ميں ملوث ہونے کو مسترد کيا۔
پير تيئس دسمبر کو رياض کی ايک عدالت ميں سامنے آنے والے فيصلے ميں اس وقت استنبول ميں تعينات سعودی قونسل جنرل سعود القہطانی کو بھی اس معاملے سے بری قرار ديا گيا ہے۔ سعودی ٹيلی وژن پر اس موقع پر يہ بھی بتايا گيا کہ خاشقجی قتل کی سعودی اٹارنی جنرل کی جانب سے کرائی گئی تفتيش ميں بھی يہی سامنے آيا تھا کہ القہطانی کا اس قتل سے کوئی تعلق نہيں تھا۔ يہ امراہم ہے کہ القہطانی شہزادہ محمد بن سلمان کے خاص مشير ہيں اور امريکا ان پر اس قتل کے سلسلے ميں پابندياں عائد کر چکا ہے۔
اس کيس پر عدالت کی سماعت کافی حد تک خفيہ رکھی گئی تھی۔ صرف چند سفارت کاروں، خاشقجی کے خاندان کے چند ايک ارکان اور چند ترک اہلکاروں کو ہی اس کا علم تھا۔ سزاؤں کا اعلان اٹارنی جنرل کے ترجمان نے کيا اور اسے ٹيلی وژن پر براہ راست نشر کيا گيا۔
جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے عالمی سطح پر سعودی عرب اور بالخصوص شہزادہ محمد بن سلمان کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا تھا۔
ع س / ک م، نيوز ايجنسياں