1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی کوریا: وزیر دفاع مستعفیٰ اور صدر کے مواخذے کی کوشش

5 دسمبر 2024

جنوبی کوریا کی پولیس صدر یون سک یول اور وزیر داخلہ سے مارشل لاء کے مختصر عرصے کے اعلان پر مبینہ 'بغاوت' کے لیے تفتیش کر رہی ہے۔ مارشل لا لگانے کی صدر کی کوشش نے ملک میں ہلچل مچا دی ہے۔

https://p.dw.com/p/4nlf8
صدر کے خلاف عوامی اجتماع
جنوبی کوریا کے صدر کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، جبکہ حزب اختلاف نے ان کے مواخذے کی تحریک ایوان میں پیش کر دی ہے، جس پر جلد ووٹنگ کا امکان ہے تصویر: Lee Jin-man/AP Photo/picture alliance

جنوبی کوریا کے استغاثہ نے جمعرات کے روز بتایا کہ صدر یون سک یول نے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کی جو کوشش کی تھی، اس کی سرکاری تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ اس معاملے میں وزیر داخلہ لی سانگ من اور سابق وزیر دفاع کم یونگ ہیون سے بھی تفتیش کی جائے گی۔

پولیس نے کہا کہ اس حوالے سے صدر سے "بغاوت" کے بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے اور وزیر دفاع کم یونگ ہیون، جو اس واقعے کے بعد پہلے ہی مستعفی ہو چکے ہیں، پر سفری پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اور انہیں جنوبی کوریا چھوڑنے سے منع کر دیا گیا ہے۔

جنوبی کوریا میں ناکام مارشل لاء کے بعد اب کیا ہو گا؟

ادھر اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی نے بدھ کے روز ہی مارشل لا کے مختصر اعلان پر صدر یون سک یول کے مواخذے کے لیے ایک بل پیش کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ان کی حکومت کے دیگر وزراء نے بھی استعفیٰ دینا شروع کر دیا ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن کِم سیونگ ون نے مواخذے کی تحریک پیش کیے جانے کے بعد قومی اسمبلی میں کہا، "یون حکومت کی طرف سے ایمرجنسی مارشل لاء کے اعلان نے ہمارے لوگوں میں بہت زیادہ الجھن اور خوف پیدا کیا۔"

انہوں نے مزید کہا، "جن لوگوں اور معاونین نے پارلیمنٹ کی حفاظت کی انہوں نے خود کو خطرے میں ڈال کر ہماری حفاظت کی۔ عوام جیت گئے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم عام لوگوں کی حفاظت کریں۔"

جنوبی کوریا: مارشل لاء کی افراتفری اور صدر سے استعفے کا مطالبہ

انہوں نے کہا، "صدر یون کے اختیار کو فوری طور پر ہمیں معطل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے لوگوں کے خلاف ناقابل تلافی، تاریخی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔عوام کی پریشانی کو کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں واپس آ سکیں۔"

جنوبی کوریا کی نیوز ایجنسی یونہاپ کے مطابق اپوزیشن رہنما ہفتے کے روز تک مواخذے کی تحریک پر ووٹنگ کی کوشش کر رہے ہیں۔

صدر کے خلاف عوامی مارچ
جنوبی کوریا میں لوگ صدر کے اقدام سے ناراض ہیں اور وہ اب بھی مارشل لاء کے نفاذ کے خلاف دارالحکومت میں مظاہرہ اور مارچ کر رہے ہیںتصویر: Lee Jin-man/AP Photo/picture alliance

قانون کے مطابق اگر اس تحریک کے پارلیمان میں پیش کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر اس پر ووٹ نہ ہو تو اس تحریک کو منسوخ سمجھا جائے گا۔

جنوبی کوریا کی جانب سے شمالی کوریا پرانتباہی فائرنگ

یون کی پارٹی کا مواخذے کے ت‍حریک کی مخالفت کرنے کا فیصلہ 

صدر یون کی حکمران پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) نے مواخذے کی تحریک کی مخالفت کرنے کا اپنا ارادہ ظاہر کیا ہے، لیکن اپوزیشن کو تحریک کی منظوری کے لیے صرف آٹھ انحرافی ووٹ کی ضرورت ہے۔

پی پی پی کے 18 قانون سازوں نے پہلے ہی بدھ کی صبح سویرے ہنگامی اجلاس میں یون کے مارشل لاء آرڈر کو منسوخ کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا اور پارٹی کے رہنما ہان ڈونگ ہن نے صدر کے اقدامات کو "غیر آئینی" قرار دیا ہے۔

تاہم اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی اب بھی مواخذے کے خلاف ووٹ دے گی تاکہ "انتشار کے سبب شہریوں اور حامیوں کو جو نقصان پہنچنے والا ہے اس کو روکا جا سکے۔"

اگر یون کا مواخذہ کیا جاتا ہے اور انہیں اقتدار سے برطرف کر دیا جاتا ہے، تو جنوبی کوریا کے آئین کے مطابق وزیر اعظم ہان ڈک سو رہنما کے طور پر ان کی جگہ لیں گے۔

اور اگر وہ بھی استعفیٰ دیتے ہیں یا بصورت دیگر انہیں بھی عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے تو 60 دن کے اندر نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔

'سیاسی خودکشی'

بدھ کے روز امریکی نائب وزیر خارجہ کرٹ کیمبل نے مارشل لاء کے نفاذ پر اپنے رد عمل میں کہا تھا کہ یون نے ایک سنگین قسم کا غلط فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ اس حقیقت کی ایک طاقتور علامت ہے کہ لوگ باہر آنے اور یہ واضح کرنے کے لیے تیار تھے کہ یہ ایک انتہائی غیر قانونی عمل تھا۔ اس پر اب فیصلہ عوام کی مرضی اور واضح طور پر قانون ساز اداروں کی مرضی سے مکمل ہو گا۔

ایک تجزیہ کار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ یون کے اقدامات "سیاسی خودکشی" کے مترادف تھے۔

 ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)

جنوبی کوریا میں مارشل لاء لگانے کی کوشش ناکام