حلب کا معرکہ اختتام پذیر ہو گیا
14 دسمبر 2016اقوام متحدہ میں روسی سفیر وتالی چرکین نے بتایا ہےکہ مشرقی حلب کے تمام علاقے اب دمشق حکومت کے دستوں کے زیر انتظام ہیں۔ باغیوں نے گزشتہ روز اپنی مزاحمت ترک کرتے ہوئے شامی دستوں کے ساتھ امن معاہدے پر اتفاق کر لیا تھا اور اس طرح چار سال سے حلب میں جاری لڑائی بھی بند ہو گئی۔
تاہم ذرائع ابھی بھی کچھ علاقوں میں فائرنگ کی اطلاعات دے رہے ہیں۔ اس امن معاہدے کے تحت باغی شام کے دیگر علاقوں میں بھی لڑائی روک دیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ باغیوں کے کچھ گروپس زخمی افراد کو تباہ شدہ علاقوں سے نکالنے میں مدد کریں گے۔
شامی حکومت کے حامی اورینیٹ ٹیلی وژن کے مطابق حلب کے کچھ علاقوں سے عام شہریوں اور باغیوں کے انخلاء کا عمل کل جمعرات تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آج بدھ کی علی الصبح سے یہ کام شروع ہونا تھا۔
حزب اختلاف کے ذرائع نے بتایا ہے کہ زخمیوں کے پہلے قافلے کو جمعرات کی شام تک ہی حلب سے باہر نکالنا ممکن ہو سکے گا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مشرقی حلب سے ابھی تک کسی بھی شخص کے باہر نکلنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے حالانکہ وہاں بیس بسوں کا ایک قافلہ عام شہریوں کے انتظار میں کھڑا ہوا ہے۔ روسی ذرائع نے کہا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران چھ ہزار سے زائد عام شہری حلب سے نکل چکے ہیں۔
اس موقع پر فرانسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ مشرقی حلب سے عام شہریوں اور باغیوں کے انخلاء کے عمل غیر واضح ہے اور اسی وجہ سے اس میں ابھی بھی کچھ مشکلات درپیش ہیں۔ اس موقع پر فرانسیسی حکام نے تجویز پیش کی، ’ فرانس چاہتا ہے کہ حلب سے انخلاء کا عمل اقوام متحدہ کے مبصرین کی نگرانی میں ہو اور ریڈ کراس جیسی امدادی تنظیم کو بھی اس میں لازماً شامل کیا جائے‘۔
اس تناظر میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ وہ حلب کے مشرقی حصے سے باغیوں اور عام شہریوں کے انخلاء کے منصوبے میں شامل نہیں ہے تاہم وہ انخلاء کے عمل میں مدد دینے کو تیار ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں سے جاری شامی تنازعے کے باعث اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق کم ازکم تین لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔