حملے کم کرنے کہ وجہ قیادت کی تبدیلی نہیں، طالبان
19 جولائی 2016افغان حکومت اور نیٹو فورسز کے عہدیداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ جب سے طالبان کے خلاف امریکی کمانڈروں کو فضائی حملے کرنے کے لیے ’مزید آزادی‘ فراہم کی گئی ہے، تب سے انہیں طالبان کے خلاف کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔
ایک رپورٹ میں مغربی حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ملا محمد اختر منصور کی ہلاکت کے بعد سے طالبان کو بظاہر قیادت کے مسئلے کا سامنا ہے اور یہ کہ ان کے حملے سست روی کا شکار ہو گئے ہیں۔
طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا ان رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے حملوں میں کمی کی وجہ رمضان تھا کیوں کہ یہ سال کا گرم ترین موسم تھا لیکن امریکا کی قابض افواج کے کمانڈروں اور کابل میں ان کی کٹھ پتلیوں نے اس صورتحال کا غلط تاثر لیا ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مجاہدین کمزور ہو گئے ہیں یا پھر قیادت میں تبدیلی کی وجہ سے انہیں مسائل کا سامنا ہے۔
طالبان کے اس ترجمان کے مطابق انہوں نے ایک مرتبہ پھر حملوں کا آغاز کر دیا ہے کیوں رمضان اور عید کی چھٹیاں ختم ہو چکی ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے جارحانہ کارروائیاں کرتے ہوئے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر تین وسطی اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔
دوسری جانب افغان حکام نے شمالی صوبہ قندوز میں ایک روزہ شدید لڑائی کے بعد طالبان فورسز کو پیچھے دھکیل دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ ضلع قلعہ ذال کے سربراہ محبوب اللہ سعیدی کا کہنا تھا کہ اس دو طرفہ لڑائی میں طالبان کے ایک کمانڈر سمیت کم از کم آٹھ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سکیورٹی فورسز کا بھی ایک اہلکار ہلاک ہوا ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد چار بتائی گئی ہے۔
سعیدی کا مزید کہنا تھا کہ طالبان دور دراز کے دیہات کی طرف فرار ہو گئے ہیں اور اُن کی پسپائی کے بعد سے لڑائی کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ شمال میں واقع صوبہ قندوز افغانستان کے سب سے غیر مستحکم صوبوں میں سے ایک ہے اور گزشتہ برس طالبان مختصر وقت کے لیے اس کے دارالحکومت پر قبضہ کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے۔