حکومتی ترقیاتی منصوبے سب کے لیے یا صرف اتحادیوں پر نوازشات؟
10 جون 2023پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ( پی ایس ڈی پی) کے زیادہ تر منصوبے مبینہ طور پر حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی فرمائش پر رکھے ہیں، اس صورتحال پر حکومت کے مخالفین کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔
الیکشن میں تاخیر کی بات کرنا غیر آئینی نہیں، اسحاق ڈار
اتحادی حکومت نے کل بروز جمعہ جب مالی سال دوہزار تئیس چوبیس کے لئے بجٹ پیش کیا تو اس میں گیارہ سو پچاس ارب روپے سوشل سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے مختص کئے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس خطیر رقم کے لئے بہت سارے پراجیکٹس اتحادی جماعتوں کی فرمائشوں پر رکھے گئے ہیں۔
پاکستان کا نئے مالی سال کے لیے بجٹ، تعریف بھی اور تنقید بھی
ان فرمائشوں کے حوالے سے بہت سارے اعتراضات اور سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کچھ حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ انتخابات بہت زیادہ دور نہیں تو اتنی خطیر رقم کے منصوبے کس طرح پایا تکمیل تک پہنچائے جائیں گے۔
اتحادیوں پر نوازشات
انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پی ایس ڈی پی کے لیے مختص کردہ رقم کا ایک بڑا حصہ اتحادی جماعتوں کے اراکین اسمبلی کے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں پر لگے گا۔
پاکستان: معاشی اور سیاسی بحران کے درمیان آج سالانہ بجٹ پیش
جب ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کے رکن قومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی سے دریافت کیا، تو ان کا کہنا تھا، ''اس بات میں کوئی شک نہیں کہ زیادہ تر پراجیکٹس اتحادی اراکین اسمبلی کی فرمائش پر ترتیب دیے گئے ہیں اور ان پراجیکٹس کو نظر انداز کیا گیا ہے، جو برسوں سے چل رہے ہیں۔ چترال میں چار سٹرکوں کی تعمیر کے لئے نو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں لیکن یہ ایک پرانا پراجیکٹ ہے۔‘‘
عبدالاکبر چترالی کے مطابق حکومت نے مالی سال دوہزار تئیس چوبیس کے لئے اتحادی جماعتوں کے اراکین سے ان کی ترجیحات کے بارے میں پوچھا تھا۔ '' لیکن ہم سے اس حوالے سے کچھ دریافت نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ہمیں کسی پراجیکٹ کی پیشکش کی گئی۔‘‘
حکومتی پھرتیاں
خیال کیا جاتا ہے کہ حکومت نے اس حوالے سے جلد بازی سے کام لیا اور بجٹ سے صرف چند دن پہلے اپنی اتحادی اراکین اسملبی سے مختلف اسکیموں کے حوالے سے تجاویز جمع کرانے کا کہا۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی کشور زہرا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں بجٹ سے کچھ دنوں پہلے کہا گیا کہ آپ فوری طور پر ترقیاتی پروگرام کے لئے اسکیمیں تجویز کریں۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ ایک رکن اسمبلی کو کم از کم پچھتر کروڑ روپے دیے جا رہے ہیں تاکہ وہ انہیں ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کر سکیں۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی، اسٹیبلشمنٹ کا نیا انتخاب؟
کشور زہرہ کے مطابق پاکستان میں افسر شاہی کے کاموں میں کافی تاخیر ہوتی ہے او بقول ان کے ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر '' ان منصوبوں کے لیے اگر پیسے مل بھی جائیں تو ان پر عملدرآمد کیسے ہو گا۔ پی سی ون اور پی سی ٹو بننے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ حکومت کے کئی ادارے اس میں ملوث ہوتے ہیں اور کئی سیکریٹریز اور افسران سے منظوری لینی پڑتی ہے۔ تو مجھے نہیں لگتا کہ یہ پروجیکٹس اتنی جلدی مکمل ہو جائیں گے۔‘‘
انتخابات کے قریب ترقیاتی پروگرام
ناقدین کا خیال ہے کہ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں، جہاں سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حکومت وقت پر یہ بات واضح کی کہ وہ انتخابات کے قریب کسی بھی طرح کے ترقیاتی کام نہیں کرا سکتی کیونکہ اس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ حکومت رائے دہندگان پر اثر انداز ہورہی ہے۔
انتخابی قوانین سے واقفیت رکھنے والے ماہرین کے مطابق اگر حکومت ایسا کوئی پراجیکٹ شروع کرتی ہے، تو اسے رکوایا جا سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ کمیشن کو اس حوالے سے اختیارات حاصل ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بجٹ ابھی پیش کیا گیا ہے۔ پہلی جولائی سے یہ نافذ ہوگا اور یکم اگست کو اس پر عمل درآمد ہونا شروع ہو جائے گا۔ یکم اگست کے بعد انتخابات بہت قریب ہوں گے اور ایسی صورت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس طرح کے ترقیاتی پراجیکٹس کو رکوا دے اور پھر الیکشن کے بعد ان پر کام کی اجازت دے۔‘‘
کنور دلشار کے مطابق ، ''اس کے علاوہ سپریم کورٹ بھی اس طرح کا کوئی قدم اٹھا سکتی ہے اورماضی میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں۔‘‘
اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے جب وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس خبر کی تردید کی۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کے دوسرے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔