1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا: حکومت بدلی،حالات نہیں

24 جون 2013

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود امن وامان کی صورت حال میں کوئی بہتری نہیں آسکی، عام انتخابات کے بعد سے مساجد، مدارس جنازوں اور ارکان اسمبلی پر خودکش حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/18v7R
تصویر: picture-alliance/AP

ماہرین آنیوالے دنوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔ قیام امن کے نام پر عوام سے ووٹ لینے والی پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت تاحال دہشت گردی سے نمٹنے کی لیے کوئی پالیسی سامنے نہ لاسکی یہی نہیں بلکہ دہشت گردی کی تازہ لہر کو وفاقی حکومت پر ڈالتے ہوئے اسے خارجہ پالیسی اور ڈرون حملوں کا رد عمل قرار دیتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشیش کررہی ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے آنیوالے مالی سال کے لیے امن امان کےلیےمختص بجٹ میں 1.82فیصد اضافہ کرتے ہوئے 23ارب روپے سے زیادہ کی رقم مختص کی ہے لیکن وہ تاحال وہ دہشت گردی کے واقعات روکنے میں ناکام نظر آتی ہے۔

verletztes Kind in Pakistan wird versorgt
صوبائی حکومت تاحال دہشت گردی سے نمٹنے کی لیے کوئی پالیسی سامنے نہ لاسکیتصویر: Reuters

عسکریت پسندوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی رعایت نہیں کی ان کے دو ارکان اسمبلی کو اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ کے اندر قتل کیا گیا جبکہ سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی اسد قیصر کے گھر پر بھی حملہ کیا گیا پشاور کے ایک روز ہ دورے پر آنے والے پاکستان تحریک انساف کے چیرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف دہشت گردی کی لیے قومی پالسیی بنانے کےلیے اجلاس بلائیں جس میں جنر ل پرویز کیانی بھی شریک ہوں کیونکہ ہمیں ہر حال میں دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جنگ جیتنی ہوگی۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انساف کے صوبائی صدر اور سیپکر خیبر پختونخوا اسمبلی اسد قیصر کا کہنا ہے کہ قیام امن کے حوالے سے وہ کوئی بھی قدم جلد بازی میں نہیں اٹھائیں گے۔ ان کا کہنا تھا، ’’عوام نے پاکستان تحریک کو امن قائم کرنے کیلئے ووٹ دیا ہے اور ہماری ترجیحات میں بھی قیام امن ہے لیکن ہم کوئی جذباتی قدم نہیں اٹھائیں گے بجٹ اجلاس سے فارغ ہوتے ہی وفاقی حکومت سے بات کریں گے اور مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں گے انکا مزید کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ طالبان کے ساتھ بات کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے‘‘۔

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کو مضبو ط کرنا ہوگا پولیس فورسز میں اضافہ وقت کا اہم تقاضا ہے جبکہ انہیں جدید سازوسامان سے آراستہ کرنا اور انٹیلی جنس کے نظام میں بہتری لانا ہوگی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی سرحد تین اطراف سے قبائلی علاقوں سے ملتی ہے جبکہ مختلف اضلاع کے ساتھ جڑے ہوئےچھ نیم قبائلی علاقے صوبے میں قیام امن کے لیے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔ ان نیم قبائلی علاقوں میں صوبائی حکومت کی عملداری نہیں ہے۔

Pakistan Anschlag in Quetta 23.05.2013
دو ارکان اسمبلی کو اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ کے اندر قتل کیا گیاتصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

صوبائی حکومت وقتاﹰ فوقتاﹰ پولیس کی تعداد میں اضافہ کرتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ قلیل عرصے میں پشاور میں امن کے قیام کے لیے دو درجن چوکیوں کا قیام بھی عمل لائی ہے تاہم اس کے باوجود دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے کئی نیم قبائلی علاقوں میں پولیس عوام کی حفاظت کی بجائے خود کو بچانے کے لیےکوشاں رہتے ہیں۔ ان نیم قبائلی علاقوں کو عسکریت پسندوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے، جہاں صوبائی حکومت کی عمل داری نہیں ہے اور عسکریت پسند انہی علاقوں میں چھپتے ہیں۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ان علاقوں کی حیثیت کے بارے میں قانون سازی وقت کا اہم تقاضا ہے کہ ان علاقون کو براہ راست صوبے کے حوالے کیا جائے۔

دوسری جانب پولیس اور سیکورٹی فورسز نے اب تک سینکڑوں کی تعداد میں دہشت گردی میں ملوث افراد کو حراست میں لیا ہے لیکن ابھی تک کسی کو عدالتوں سے سزاء نہیں ملی جس کی وجہ دہشت گردی کے خلاف مؤثر قوانین کی کمی بتائی جاتی ہے۔ ان قوانین میں سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مطلوب افراد رہائی پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

Anschlag in Pakistan vor der Wahl
ماہرین آنیوالے دنوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت کے دوران عوامی نیشنل پارٹی اور ان کے اتحادی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی موثر قانون بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن پارٹی کے صوبائی صدر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کی ہے اگر اسے آگے بڑھایا تو اس کے بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا ”اس جنگ میں بہت ساری کمزوریاں ہیں دہشت گردی میں ملوث افراد سے نمٹنے کیلئے قانوں سازی میں تاخیر ہوئی ہے اسکی وجہ سیاسی جماعتوں کا آپس میں اختلاف تھا لیکن اب بھی اگر حکومت چاہے تو بہت کچھ کرسکتی ہے‘‘۔

سال رواں کے دوران خیبر پختونخواہ میں ٹارگٹ کِلنگ، بم دہماکوں، خودکش حملوں کے200 سے زائد و اقعات میں کم ازکم 250 افراد مارے گئے ہیں۔ جس میں ارکان پارلیمنٹ ،اعلیٰ سرکاری اہلکار ،پولیس،تاجراور شہری شامل ہیں۔

رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور

ادارت: زبیر بشیر