خیبر پختونخوا کی تاریخی لائبریری کی ڈیجیٹلائزیشن
15 اپریل 2015قیام پاکستان سے قبل 1913ء میں قائم کردہ اس تاریخی لائبریری میں نوے ہزار سے زائد کتابیں اور 1261 قلمی نسخے یا مخطوطے قارئین کے مطالعے کے لیے دستیاب ہیں۔ جدید دور کے تقاضوں اور قارئین کی سہولت کے لیے حال ہی میں یونیورسٹی انتظامیہ نے لائبریری کی کمپیوٹرائزیشن کا کام شروع کردیا اور آئندہ ان تمام کتب تک یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے ذریعے رسائی ممکن ہو گی۔
اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری کے چیف لائبریرین تحسین اللہ خان کے بقول عالمی سطح پر کتب خانوں کی ڈیجیٹلائزیشن کا سلسلہ بہت پہلے شروع ہو گیا تھا لیکن پاکستانی تعلیمی اداروں میں چونکہ آئی ٹی سسٹم متعارف کرانے کا عمل سست رفتار رہا ہے، اس لیے شروع میں اس طرف بہت زیادہ توجہ نہ دی جا سکی۔ اب لیکن جگہ جگہ اس حوالے سے کام میں تیز رفتاری دیکھنے میں آ رہی ہے، جو وقت کی ضرورت بھی ہے۔
تحسین اللہ خان نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’کتابوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کی وجہ سے لائبریری کے ریکارڈ کو مینوئل سطح پر برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ پھر نئے دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری یہ خواہش بھی تھی کہ ہم اس کتب خانے کو ڈیجیٹل سسٹم میں لے آئیں۔‘‘
اب تیرہ ہزار مربع فٹ رقبے پر پھیلے ہوئے اس تاریخی کتب خانے کو ایک طرف اگر ڈیجیٹلائز کیا جا رہا ہے تودوسری طرف اس لائبریری میں موجود قدیم قلمی نسخے عام قارئین کے ساتھ ساتھ اہل علم کی دلچسپی کا مرکز بھی بنتے جا رہے ہیں۔
ایسے قدیم نسخوں اور صدیوں پہلے لکھی گئی قلمی دستاویزات کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے تحسین اللہ خان کا کہنا تھا، ’’ہمارے پاس ہاتھ سے لکھی گئی کئی ایسی کتابیں اب بھی اصلی حالت میں موجود ہیں جو مثال کے طور پر قریب 1200سال پرانی ہیں۔ ایسی کتابیں یورپ اور دوسرے مغربی ممالک میں بھی موجود نہیں ہیں۔‘‘
لائبریری میں موجود قدیم نسخوں کا ذکر کرتے ہوئے چیف لائبریرین کا کہنا تھا کہ ابوالفرج علی بن حسین اصفہانی کی ’کتاب الاغانی‘ چوتھی صدی ہجری میں لکھی گئی تھی، جوکہ عربی زبان کی ایک قدیم کتاب ہے، جس میں مشہور شخصیات کی سوانح یا سیرت کا تذکرہ ہے۔ تحسین اللہ خان کے بقول اس لائبریری میں عربی، فارسی، پشتو اور پنجابی زبانوں کے ایسے بہت سے نایاب نسخے بھی موجود ہیں، جن کو مختلف مصنفوں نے اپنے اپنے دور میں بڑی محنت سے ہاتھوں سے لکھا تھا۔
اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی اس لائبریری کے سابق کارکن سید سیار بادشاہ کہتے ہیں کہ اس کتب خانے میں اسلامی اور دیگر تحقیقی کتب کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے، جس سے طالب علموں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ سیار بادشاہ کہتے ہیں کہ لائبریری کی ڈیجیٹلائزیشن سے اب دنیا بھر میں کوئی بھی قاری اس کتب خانے سے فائدہ اٹھاسکے گا۔
اس کتب خانے کے لیے تین عشروں تک پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے والے سیار بادشاہ نے کہا کہ اس لائبریری کی خاص بات اس کا وہ میوزیم بھی ہے، جس میں تاریخی کتابوں کے ساتھ ساتھ کئی دیگر نوادرات بھی محفوظ ہیں۔
چیف لائبریرین تحسین اللہ خان کے بقول کتب خانے کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں بھی تمام بڑی لائبریریاں عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں اور ہر طرح کے قارئین کو ہر قسم کی کتابیں مطالعے کے لیے آن لائن اور آف لائن دونوں صورتوں میں دستیاب ہوں۔