دبئی، اب مشین سے گرما گرم روٹی مفت نکالیں
27 ستمبر 2022دنیا میں بڑھتی ہوئی منگائی کے باعث امیر ترین ممالک بھی غربت کے مسئلے سے دو چار ہیں۔ اشیا خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کو مدِنظر رکھتے ہوئے دبئی نے مفت روٹی کی تقسیم کا ایک جدید طریقہ متعارف کروایا ہے۔ فلک بوس عمارتوں کا یہ ریگستانی شہر جہاں کھانے کی تقریباﹰ تمام اشیا درآمد کی جاتی ہیں دنیا میں خوارک کی قلت اور بڑھتی قیمتوں کے باعث شدید متاثر ہوا ہے۔ خصوصاﹰروس کے یوکرین پرحملے کے بعد سے دنیا میں غذائی اجناس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔
دبئی کی سپر مارکیٹوں میں گزشتہ ہفتے ایسی دس وینڈنگ مشینیں لگائی گئی ہیں جن میں کمپیوٹر ٹچ اسکرین کی مدد سے لوگ اپنے لیے مختلف قسم کی روٹی کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اس میں سینڈوچ بنانے کے لیے بریڈ، پٹا روٹی یا چپٹی ہندوستانی طرز کی چپاتی کے آپشنز موجود ہیں۔
مشین میں کریڈٹ کارڈ کی جگہ بھی موجود ہے تاہم یہ عطیات دینے کے لیے ہے آدائیگی کے لیے نہیں۔ نیپال سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے بتایا کہ انہیں کسی دوست کے توسط سے ان مشینوں کا پتا لگا اور اب وہ وہاں اپنے لیے روٹی لینے آئے ہیں۔ بگیندر جنہوں نے اپنا پورا نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ وہاں گاڑیاں دھونے کا کام کرتے ہیں۔
لاکھوں ایشیائی تارکین وطن کی طرح بگیندر نے بھی متحدہ عرب امارات میں دولت کمانے کا خواب دیکھا اور اسے کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے دبئی کا رخ کیا۔ دبئی ایک ایسا شہر ہے جس نے پچھلے کئی سالوں میں ضرورت سے زیادہ شہرت حاصل کی ہے۔ دبئی کے شماریاتی مرکز کے حکومتی اعدادوشمار کے مطابق وہاں کھانے کی قیمتوں میں جولائی کے ماہ میں 8.75 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ٹرانسپورٹ کی لاگت میں 38 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
روٹی کی یہ مشینیں دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی قائم کردہ فاؤنڈیشن کی جانب سے لگائی گئیں ہیں۔ متعلقہ فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر زینب جمعہ التمیمی نے کہا کہ اس منصوبے کے پیچھے خیال یہ ہے کہ پسماندہ خاندانوں اور کارکنوں کے پاس جانے کے بجائے وہ ہمارے پاس آئیں۔ انہوں نے کہا کہ اب کوئی بھی ضرورت مند صرف بٹن دبانے سے گرم روٹی حاصل کر سکتا ہے۔
تیل کی دولت سے مالا مال متحدہ عرب امارات کی آبادی تقریباً 10 ملین افراد پر مشتمل ہے جن میں سے 90 فیصد غیر ملکی ہیں۔ غیر ملکی افراد میں زیادہ تر تعداد مزدور پیشہ افراد کی ہے جو ایشیا اور افریقہ سے روزگار کی تلاش میں یہاں آکر آباد ہوئے ہیں۔
دبئی، متحدہ عرب امارات کا تجارتی مرکز ہے جو فلک بوس عمارتیں بنانے، سروس سیکٹر، رئیل اسٹیٹ اور لگژری ٹورازم کے لیے کارکنوں کی اس فوج پر انحصار کرتا ہے جو بیرون ممالک سے یہاں آتے ہیں۔ بگیندر جو پچھلے تین سالوں سے وہاں کام کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ وہ ہر گاڑی کی صفائی کے بدلے تین درہم یا 81 امریکی سینٹ کماتے ہیں۔ اپنی تنخواہ اور گاہکوں کی جانب سے ملے ٹپ کو ملا کر وہ ماہانہ 700 سے 1,000 درہم کما لیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا، ''میرا آجر میری رہائش اور نقل و حمل کا خرچہ اٹھاتا ہے لیکن اس میں کھانا شامل نہیں۔‘‘ دبئی میں اب ان تارکین وطن کارکنوں کو درپیش مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر بہتر اجرتوں کا مطالبہ کرنے والے ڈیلیوری بوائز نے رواں سال مئی میں ایک غیر معمولی ہڑتال بھی کی تھی۔ جولائی میں، حکام نے سماجی امداد کو دوگنا کرنے کا اعلان کیا لیکن یہ صرف ان صرف مٹھی بھر اماراتی خاندانوں کے لیے ہے جن کی آمدنی 25,000 درہم ماہانہ سے کم ہے اور انہیں پسماندہ افراد میں شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم اس امدادی پروگرام میں غیر ملکی شامل نہیں ہیں۔
فادی الرشید ایک اردنی تاجر ہیں جو دبئی میں پچھلے بیس سال سے مقیم ہیں کا کہنا ہے کہ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی شرح سود کی وجہ سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی اجرتیں کم ہیں اور جو زندگی گزارنے کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث اب اپنی تمام ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔
اقوام متحدہ کی مہاجرت سے متعلق عالمی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات تقریباً 87 لاکھ تارکین وطن کا گھر ہے جن میں خاص طور پر ہندوستانی، بنگلہ دیشی اور پاکستانی شامل ہیں۔
جبکہ لندن میں قائم سرمایہ کاری اور مہاجرت کے ایک مشاورتی ادارےہینلے اینڈ پارٹنرز کا تخمینہ ہے کہ دبئی میں 68,000 سے زیادہ کروڑ پتی اور 13 ارب پتی خاندان رہائش پذیر ہیں جو اس شہر کو دنیا کا 23 واں امیر ترین شہر بناتے ہیں۔
رب⁄ش ر (اے ایف پی)