دھرنے اور حکومت کے مستعفی ہونے کے مطالبات
16 اگست 2014عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے آبپارہ چوک میں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف کی حکومت کے خاتمے اور ان کی گرفتاری تک دھرنے کے شرکاء یہاں سے نہیں اٹھیں گے۔
طاہر القادری نے کہا کہ لاہور کی سیشن کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں وزیراعظم اور وزیر اعلٰی پنجاب سمیت اکیس افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنےکا جو حکم دیا ہے، اس پرفوراً عمل کیا جائے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فوری طور پر شریف برادران کے خلاف مقدمہ درج نہ کیا گیا تو اس کے نتائج پولیس کو بھگتنا ہوں گے۔
انہوں نے دس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شریف برادران کی حکومت کے خاتمے اور ان کی گرفتاری کے بعد اُن کا دوسرا مطالبہ قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور تیسرا مطالبہ قومی حکومت کا قیام ہے ۔
ان کا چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ ایک قومی حکومت کے ذریعے کرپٹ افراد کا کڑا احتساب کیا جائے۔ انہوں نے قومی حکومت کے ذریعے دس نکاتی معاشی اور دس نکاتی انقلابی ایجنڈے کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ملک سے فرقہ واریت کے خاتمے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی ترامیم کا بھی مطالبہ کیا۔
طاہر القادری کا جلسہ اس وقت ڈرامائی شکل اختیار کر گیا جب ہجوم سے ایک پستول بردار شخص کو پکڑ کر اسٹیج پر لایا گیا۔ط اہرالقادری نے اس شخص کو شریف برادران کی جانب سے بھجوایا گیا دہشت گرد بتاتےہوئے معاف کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم ہجوم کی جانب سے ممکنہ تشدد کے سبب سہمے ہوئے اس شخص کا کہنا تھا کہ وہ پولیس اہلکار ہے اور ڈیوٹی ختم کر کے گھر جاتے ہوئے جلسے میں طاہر القادری کی تقریر سننے آ گیا تھا۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بنی گالہ میں اپنی پر تعیش رہائش گاہ پر آرام کرنے کے بعد کئی گھنٹوں کی تاخیر سے جلسہ گاہ کی جانب روانہ ہو گئے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ نواز شریف کا استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں آئیں گے۔ خیال رہے کہ عمران خان کو گزشتہ شب کارکنوں کو کھلے آسمان تلے چھوڑ کر اپنے گھر چلے جانے کی بناء پر سوشل میڈیا اور مقامی ذرائع ابلاغ پر بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
موسم کی صورت حال اور مظاہرین
اسلام آباد میں گزشتہ شب اور ہفتے کی صبح ہونے والی بارش کے بعد دن بھر بھی موسم ابر آلود رہا۔ صوبے خیبر پختونخواہ سے دو روز قبل آزادی مارچ میں شرکت کے لیے آنے والے تحریک انصاف کے کارکنوں کو دو راتیں کھلے آسمان تلے گزارنا پڑیں۔ کھانے پینے کا انتطام نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر کارکن ٹھیلوں پر موجود اشیاء مہنگے داموں کھانے پرمجبور ہیں۔ اس کے علاوہ بیت الخلاء کے لیے بھی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم عوامی تحریک مارچ کے منتظمین نے اپنے شرکاء کے لیے کھانے پینے کے نسبتاً بہتر انتظامات کر رکھے ہیں۔
وفاقی حکومت کا دھرنوں پر ردعمل
وفاقی حکومت نے آزادی اور انقلاب مارچ کے شرکاء کے اسلام آباد پہنچنے کے بعد بظاہر اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت کو مارچ کے شرکاء کے لیے کھانے پینے کے انتظامات کرنے کی ہدایت کی تاہم جب مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت مظاہرین کے لیے کھانے پینے کی اشیاء لے کر آبپارہ پہنچے تو عوامی تحریک کے کارکنوں نے حکومتی کھانا لینے سے انکار کر دیا۔
اسی دوران وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے دھرنے کے مقامات سمیت شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے ڈیوٹی پر موجود پولیس، ایف سی اور رینجرز کے اہلکاروں سےبھی ملاقات کی۔ وزیر داخلہ نے وہاں موجود تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے نمائندوں کو یقین دہانی کرائی کہ سکیورٹی انتظامات کو فول پروف بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب اسلام آباد پہنچنے پر اپنے ابتدائی خطاب میں کہا تھا، انہیں ایک خط ملا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ان کی جان کو پنجابی طالبان کی طرف سے خطرہ ہے۔
سیاسی مفاہمت کی کوششیں
دھرنوں اور احتجاج سے دور حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مصالحت کے لیے دو ہفتے قبل شروع کی گئی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ اس ضمن میں گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ہفتے کے روز پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمان ملک سے ٹیلی فون پر بات چیت کی جبکہ لاہور میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے منصورہ میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے سرا ج الحق نے فریقین کو صبر و تحمل سے کام لینے کی ہدایت کی۔ اسی ملاقات کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ٹیلی فون پر سراج الحق سے سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور ان سے اسلام آباد پہنچنے کی درخواست کی تاکہ وہ اسلام آباد میں موجود تحریک انصاف کی قیادت اور حکومت کے درمیان مصالحت کرائیں تاکہ دارلحکومت میں روز مرہ زندگی کو معمول پر لایا جا سکے۔