ربانی کے قتل کی تحقیقات، افغان وفد کی پاکستان آمد متوقع
22 نومبر 2011خبر رساں ادارے اے ایف پی نے افغان صدارتی ترجمان ایمل فیض کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ وفد متوقع طور پر آج یعنی منگل کو پاکستان پہنچ سکتا ہے۔ برہان الدین ربانی کابل حکومت کی طرف سے اس خصوصی کونسل کے سربراہ مقررکیےگئے تھے، جو اعتدال پسند طالبان انتہاپسندوں کے ساتھ مذاکرات کے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔
افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے قائم کی گئی اس کونسل کا کام ایسے طالبان انتہاپسندوں کو مذاکرات کے ذریعے مرکزی معاشرتی دھارے میں شامل کرنا تھا، جو ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار تھے۔ تاہم یہ عمل اس وقت شدید متاثر ہوا، جب برہان الدین ربانی کوکابل میں ان کی رہائش گاہ پر ایک خود کش حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ رواں برس ستمبر میں ایک خودکش حملہ آور نے ان پر حملہ کیا تھا، بتایا گیا تھا کہ اس حملہ آور نے اپنی پگڑی میں بم چھپا رکھا تھا۔
افغان حکومت کے بقول برہان الدین ربانی کو قتل کرنے کی سازش پاکستانی سرزمین پر تیار کی گئی تھی اور یہ کہ خودکش حملہ آور بھی پاکستانی تھا۔ اس سے قبل افغان حکام نے اسلام آباد حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ اس قتل کی تحقیقات کے لیے تعاون نہیں کر رہی ہے۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق رواں ماہ ترک شہر استنبول میں ہوئی افغانستان کانفرنس کے دوران فریقین نے برہان الدین ربانی کے قتل کی مکمل تحقیقات کے لیے تعاون کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے بعد افغان حکومت نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی، جو اب پاکستان پہنچ رہی ہے۔ اسلام آباد حکومت نے بھی اس وفد کے پاکستان آنے کی تصدیق کی ہے تاہم اس حوالے سے کسی تاریخ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے اے ایف پی کو بتایا، ’پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کابل گئے تھے تو انہوں نے اس کیس کی تحقیقات میں تعاون کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ صدر آصف علی زرادی جب ترکی میں اپنے ہم منصب حامد کرزئی سے ملے تھے تو انہوں نے وزیر اعظم کی طرف سے کیے گئے تعاون کے وعدے کا اعادہ کیا تھا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: حماد کیانی