رمضان شو میں ’بچوں کی تقسیم‘، پاکستان میں ایک نئی بحث
5 اگست 2013ایک معروف پاکستانی مذہبی ٹی وی شو کے 41 سالہ متنازعہ میزبان عامر لیاقت حسین نے اپنے حالیہ پروگرام میں ایک نومولود لاوارث بچی ایک جوڑے کے حوالے کی۔ اس پروگرام میں اسلام کے حوالے سے آسان سوالات کے جوابات دینے پر مختلف انعامات دیے جاتے ہیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ نومولود بچوں کی ٹی وی پروگرام میں کسی جوڑے کو گود دینے سے ایسے بچے کو زندگی بھر مختلف سوالات کا سامنا رہتا ہے۔
جنسی مساوات اور انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی سرگرم پاکستانی کارکن رخشندہ پروین نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات چیت میں کہا، ’مجھے اس بات کے حوالے سے اخلاقی بنیادوں پر اعتراض نہیں، کیوں کہ شاید یہ ایک اچھا عمل ہے کہ کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیے جانے والے کسی بچے کو ایک محفوظ گھر مل پائے، مگر اعتراض اس طریقہ کار پر ہےکیوں کہ یہ ایسا صرف پروگرام کی تشہیر کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘
پاکستانی میں رفاع عامہ کے لیے کام کرنے والی معروف اور سرگرم تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان انور کاظمی نے بھی اس شو پر تنقید کی ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان میں لاوارث بچوں کو تحفظ فراہم کرنے والی سب سے بڑی تظیم ہے۔ انور کاظمی کے بقول، ’یہ ایک انتہائی غیراخلاقی حرکت ہے کہ کسی بچے کو میڈیا پر کسی جوڑے کے حوالے کیا جایا۔ اس سے ہر شخص کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کس نے بچہ گود لیا اور یہ کہ شاید یہ بچہ ’’ناجائز‘‘ تھا۔‘
ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان میں بھر میں سن 1951 سے نجی سطح پر سب سے بڑی ایمبولینس سروس مہیا کرنے والی رفاعی تنظیم ہے۔ اس کے علاوہ اس تنظیم کا ایک پروجیکٹ لاوارث بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کا ہے، جسے ’جھولا‘ کہتے ہیں۔ اس طرح مختلف ایدھی سینٹرز کے باہر رکھے گئے جھولے لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ ان بچوں کو ہلاک کرنے یا کسی کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے کے بجائے ان جھولوں میں ڈال دیں۔ اس کے بعد یہ تنظیم ان جوڑوں کو بھی تلاش کرتی ہے، جو ایسے بچوں کو گود لے لیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی کئی دہائیوں سے جاری اس پروجیکٹ کی نگران ہیں جب کہ 335 ایدھی مراکز کے باہر رکھے گئے جھولوں کے ذریعے ایسے بچوں کو حاصل کیا جاتا ہے۔ کاظمی کے مطابق، ’ہم ہر بچے کو جائز تسلیم کرتے ہیں اور اسے معاشرتی سطح پر شرم کے لیبل سے محفوظ رکھتے ہیں کیوں کہ اسلامی روایات کی وجہ سے ایسے بچوں کو مختلف سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘