حکومت پاکستان کی جانب سے واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ریاست مقدمات بھی درج کرے گی اور قانونی کارروائی بھی کرے گی اور اس کا باقاعدہ آغاز پنجاب کے شہر لاہور کے ایک نجی تعلیمی ادارے میں ہونے والے مبینہ ریپ کیس کے بعد ہوا۔
ایف آئی اے کو باقاعدہ ایسے تمام سوشل میڈیا پیجز، صحافیوں، یوٹیوبرز اور انفلوئینسرز کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا گیا، جنہوں نے حکومت پنجاب کے مطابق اس مبینہ ریپ کی فیک خبر کو پھیلایا۔ حکومت کی جانب سے ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسے چالیس سوشل میڈیا اکاؤنٹس تھے، جنہوں نے اس خبر کو دوسروں تک پہنچایا تھا۔ یہی نہیں اس دوران انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس تک رسائی کو بھی حکومت کی جانب سے محدود کر دیا گیا۔ اور پھر بقول حکومت فیک نیوز پھیلانے والے یوٹیوبرز/صحافیوں کے خلاف باقاعدہ مقدمات درج بھی ہوئے اور دو صحافیوں کو نجی چینل کی نوکری سے بھی نکلوا دیا گیا۔
کسی بھی واقعہ کو بنیاد بنا کر انٹرنیٹ کو بند کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ آٹھ فروری دو ہزار چوبیس کو جنرل الیکشن کے روز بھی ملک بھر میں مکمل بلیک آؤٹ تھا، نا موبائل سروس تھی اور نا ہی انٹرنیٹ۔ نتائج آنے کا وقت آیا تو انٹرنیٹ کی سانسیں ذرا بحال ہوئیں لیکن پھر فارم 45 سے فارم 47 تک حکومتی منتقلی میں انٹرنیٹ کا گلا فیک نیوز کو بنیاد بنا کر پھر گھونٹا گیا کیونکہ جو فارم 45 الیکٹرانک میڈیا کو دکھانے پر پابندی تھی وہ سوشل میڈیا خصوصا ایکس پر دکھائے جا رہے تھے۔ اس تابوت میں ایک اور کیل راولپنڈی کے کمشنر لیاقت چٹھہ کی الیکشن میں دھاندلی کی پریس کانفرنس نے ٹھونکی، جس کے بعد نا تو آج تک پاکستان میں ایکس بحال ہوا اور نا ہی اس روز کے بعد کسی نے چٹھہ صاحب کا دوبارہ دیدار کیا۔ یہاں بھی بیانیہ فیک نیوز کی روک تھام ہی بنایا گیا۔
پاکستان میں اس وقت آبادی کا تقریباً چھیالیس فیصد حصہ انٹرنیٹ تک رسائی رکھتا ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا تک رسائی رکھنے والے صارفین کی تعداد انتیس فیصد ہے یعنی اکہتر ملین لوگ۔ اب حکومت کا ماننا یہ ہے کہ انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والی یہ آبادی ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہے، جن کی لگامیں اس وقت صرف ایک شخص کے ہاتھ میں ہیں اور وہ شخص بھی حکومتی قید میں ہے۔ اس کے باوجود ہر معاملے کا رخ اسی ایک جانب موڑ کر پاکستان میں انٹرنیٹ تک رسائی کو مشکل سے مشکل ترین بنایا جا رہا ہے۔
ایف آئی اے نے اس وقت 150 صحافیوں اور وی لاگرز کے خلاف ریاست مخالف بیانیہ پھیلانے کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہیں، جن میں پاکستان کے اقلیتی صحافی ہرمیت سنگھ بھی شامل ہیں۔ ان تمام کے خلاف یہ ایف آئی آرز 26 نومبر کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران زخمی اور انتقال کرنے والے ورکرز کے حوالے سے غلط خبریں یعنی فیک نیوز دینے پر کاٹی گئی ہیں۔ جب کہ خود حکومت کی جانب سے 26 نومبر کے احتجاج کو روکنے کے لیے کیسے کیسے جھوٹے بیانیے بنانے گئے، اس پر مکمل خاموشی ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بائیس نومبر 2024 کو اچانک ایک نوٹفیکیشن سامنے آیا، جس میں کہا گیا کہ پاکستان کی چھ موٹرویز کو اچانک ایک ساتھ تعمیرو مرمت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ ہائے وے کب تک بند رہے گی یہ نہیں بتایا گیا۔ لیکن 26 نومبر کی رات پی ٹی آئی ورکرز پر ہونے والے گرینڈ آپریشن کے بعد اگلی صبح یہ تعمیرو مرمت اچانک مکمل ہو گئی اور سب موٹرویز کھل بھی گئیں۔ اسی طرح سے اچانک اسلام آباد کے اردگرد اور مری کے تمام سیاحتی مقامات کو بھی مکمل بند کر دیا گیا۔ لیکن جو وجوہات بیان کی گئیں وہ نیوز کے کس حصے میں آتی ہیں، حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے۔
چھبیس نومبر کی پی ٹی آئی کی احتجاج کی فائنل کال نے پھر سوشل میڈیا پر افواہوں اور فیک نیوز کا بازار گرم کیا۔ مقابلہ زورو شور سے جاری رہا۔ جنگ شاید ملک کی سلامتی کی بجائے اپنے اپنے بیانیے کی جیت کی لڑی جاتی رہی۔ پاکستان کے ڈیفنس منسٹر اپنے ایکس اکاؤنٹ سے پی ٹی آئی ورکرز کا مذاق اڑاتے رہے اور انفارمیشن منسٹر شلواریں چھوڑ کر بھاگ گئے کے ٹویٹ کرتے رہے مگر الیکٹرانک میڈیا مکمل خاموشی اختیار کیے رہا جبکہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی وہ قیادت جو فائنل کال میں کہیں ورکرز کے ساتھ تو نظر نا آئی مگر سوشل میڈیا پر احتجاج کرتی اور لوگوں کے جذبات سے کھیلتی ضرور نظر آئی۔
پولی کلینک میں لاشوں کی گنتی کرنے کے جرم میں مطیع اللہ جان کو اچانک غائب کرکے اگلے روز ان پر نشے کا بوگس کیس بنا کر عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ اور پھر شامت آئی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس کی، جنہیں پھر فیک نیوز کے تدارک کے لیے سست کر دیا گیا لیکن چیئرمین پی ٹی اے پھر بھی یہی بیان دیتے رہے کہ "انٹرنیٹ سلو کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔"
سال دو ہزار چوبیس حکومتی نااہلی کو فیک نیوز کے کارپٹ کے نیچے چھپاتے چھپاتے گزر گیا۔ لیکن نا تو حکومت خود ہر سے فارم 47 کا ٹیگ اتار سکی اور نا ہی سمندر کے نیچے شارک سے کامیاب مذاکرات ہی کر سکی کہ اب تار مت کاٹنا بہن کیونکہ فیک نیوز کا بیانیہ بناتے بناتے حکومت کے اپنے پاس فیک نیوز ختم ہو چکی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔