سال دو ہزار چوبیس پاکستانی صحافیوں کے لیے کیسا رہا؟
14 دسمبر 2024تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے دو ہزار چوبیس کو صحافیوں کے لیے پچھلی دہائی کا سب سے مشکل سال قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سال مین اسٹریم میڈیا کو براہ راست اور بالواسطہ طور پر ایڈوائزری، فون کالز جبکہ ''گاجر اور چھڑی‘‘ کے ذریعے کنٹرول کیا جا جاتا رہا۔ حکومت کے حامی میڈیا اداروں کو اشتہارات سے نوازا گیا جب کہ تنقیدی آوازوں کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
پابندیوں میں جکڑا ہوا میڈیا
ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سال دو ہزار چوبیس بھی ویسا ہی رہا، جیسے پچھلے کچھ سال گزرے۔ ان کے مطابق ڈیجیٹل اسپیس کم ہو گئی ہے، انٹرنیٹ سست ہو چکا ہے، وی پی این پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے اور آپ کی بہت سی آزادیاں معدوم ہو گئی ہیں،''میڈیا پر مزید پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور معلومات تک رسائی اتنا ہی بڑا مسئلہ رہی ہے، جتنا ماضی میں تھا۔ شاید پوری دنیا میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے لیکن ہمارے ہاں بھی میڈیا سینسر شپ اور خود ساختہ سینسر شپ نے اس سال ہمارے ملک میں میڈیا کو جکڑ کر رکھا ہے۔‘‘
غیر پیشہ ور صحافیوں کی انٹری
میڈیا تجزیہ کار اور ترقیاتی امور کے ماہر عدنان رحمت نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو سیاسی پولرائزیشن کی رپورٹنگ میں شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور میڈیا اداروں کو ان موضوعات کی کوریج سے باز رکھا گیا۔ عدنان رحمت کے مطابق اس کے نتیجے میں ایک خلا پیدا ہوا، جسے اکثر غیر پیشہ ور صحافیوں نے پُر کیا اور عوام تک پہنچنے والی معلومات کے معیار میں مزید کمی واقع ہوئی،''جو صحافی سیاسی طور پر حساس موضوعات پر رپورٹنگ کرنے کی ہمت کرتے تھے، انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا، جن میں قانونی دباؤ اور تشدد شامل تھے۔‘‘
ایک ماہ کی ڈیڈ لائن
پاکستان جرنلسٹس سیفٹی کولیشن کے وفاقی چیپٹر نے اپنے حالیہ اجلاس میں وفاقی اور سندھ کمیشنز کو صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے آپریشنل کرنے کے لیے ایک ماہ کی ڈیڈلائن دی ہے۔ بصورتِ دیگر خبردار کیا گیا ہے کہ ایک ’’وائٹ پیپر‘‘ جاری کیا جائے گا تاکہ صحافیوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کو سزائیں نہ دینے کی صورتحال کو اجاگر کیا جا سکے۔
اس کولیشن کے وفاقی چیپٹر کے صدر اور ممتاز صحافی حامد میر نے بتایا، ''قومی اسمبلی سے تین سال قبل صحافیوں کے تحفظ کے لیے وفاقی قانون منظور ہونے کے باوجود، وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کمیشن کے نوٹیفیکیشن کا عمل مکمل کرنے میں ناکام رہی ہے، جس کی وجہ سے صحافیوں کے خلاف جرائم پر سزا سے بچاؤ کی صورتحال برقرار ہے۔‘‘
میڈیا کے تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے حکومت کی جانب سے صحافیوں اور میڈیا تنظیموں پر بڑھتے ہوئے دباؤ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تجویز پیش کی ہےکہ حکومت صحافیوں اور عوام کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرے، کیونکہ ریاست مخالف عناصر کے خلاف جنگ میں کامیابی کا یہی واحد طریقہ ہے۔
اشرافیہ کی حکمرانی
انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''اس سال مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے، جہاں اشرافیہ کی حکمرانی ہے اور عام شہری مقبوضہ سرزمین کے باشندے بن گئے ہیں، جہاں سیاسی اختلافِ رائے، میڈیا اور انسانی حقوق کے کارکنان کو بڑے پیمانے پر جبر اور دباؤ کا سامنا ہے۔‘‘
فرزانہ باری نے ماحول کو ’’خوفناک اور دم گھٹنے والا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا، خاص طور پر نجی ادارے، آزادانہ موقف اختیار کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا، ’’جو لوگ آزادانہ رپورٹنگ کی کوشش کرتے ہیں، انہیں نوٹسز اور شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ باری نے انسانی حقوق کو دبانے اور ریاست کے جبر کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہوئے اسے ملک کے جمہوری اصولوں کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیا۔
سب کچھ ختم نہیں ہوا
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سال آزاد اور پیشہ ور صحافیوں کے لیے ناقابل تصور حد تک مشکل تھا۔ ان کے مطابق آزادی صحافت کے مخالفین ملک بھر میں استثنیٰ کے ساتھ مضبوط ہوتے رہے لیکن یہ صحافی اتنے بہادر ہیں کہ پھر بھی کھڑا ہو کر پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہیں، ''مثال کے طور پر ڈان اخبار کی تحقیقاتی کہانیوں کو بہترین تحقیقاتی کہانیوں کے طور پر شارٹ لسٹ کیا گیا، جو اس بات کی امید دلاتا ہے کہ میڈیا پر کثیر الجہتی حملوں کے باوجود سب کچھ ختم نہیں ہوا۔‘‘
پاکستانی صحافیوں کے تحفظ کے لیے قوانین
پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتے ہوئے دو ہزار اکیس میں سندھ اور وفاق کی سطح پر صحافیوں اور میڈیا کے دیگر پیشہ ور افراد کے تحفظ کے لیے الگ الگ قوانین تشکیل دیے گئے۔ تاہم ان قوانین کے عملی نفاذ میں تاخیر اور غیر مؤثر پیش رفت نے صحافیوں کے تحفظ کے مسائل کو مزید پیچیدہ کر دیا۔
فریڈم نیٹ ورک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق نومبر دو ہزار تیئس سے اگست دو ہزار چوبیس کے دوران پاکستان میں میڈیا اور اس سے وابستہ پیشہ ور افراد، بشمول صحافیوں اور دیگر میڈیا پروفیشنلز (او ایم پیز) کے خلاف حملوں اور خلاف ورزیوں کے کم از کم ستاون واقعات پیش آئے۔
پاکستان میں صحافت ایک کاروبار اورمیڈیا کرپشن کا شکار ہے، داؤ پرکیا کچھ لگا ہے ؟
جبکہ پاکستان میں جنوری دو ہزار سے اگست دو ہزار چوبیس کے درمیان ڈیوٹی کے دوران ہلاک ہونے والے صحافیوں اور میڈیا کے دیگر پیشہ ور افراد کی مجموعی تعداد، جیسا کہ فریڈم نیٹ ورک نے تصدیق کی ہے، ایک سو اکیاون ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا اور سندھ صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک علاقے ثابت ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان ہلاکتوں میں ایک سو اڑتالیس مرد صحافی اور تین خواتین میڈیا پیشہ ور شامل ہیں۔ ان میں ایک سو پچیس صحافی اور چھببیس دیگر میڈیا کارکن شامل تھے، جن میں سب سے زیادہ ایک سو دو رپورٹرز اور تیرہ کیمرہ مین نشانہ بنے۔
خیبر پختونخوا میں اکتالیس صحافیوں اور پانچ دیگر میڈیا کارکنوں کی ہلاکت ہوئی، جبکہ سندھ میں تینتیس صحافیوں اور نو دیگر میڈیا پیشہ ور افراد کو قتل کیا گیا۔ بلوچستان میں بائیس صحافیوں اور نو دیگر میڈیا پیشہ ور افراد کی ہلاکتیں ہوئیں۔ پنجاب میں ستائیس صحافیوں اور اسلام آباد میں چار میڈیا کارکنوں کی ہلاکت ہوئی۔
بامعنی بات چیت کی ضرورت
میڈیا امور کے ماہر عدنان رحمت نے سوشل میڈیا قوانین کو ’’عوام مخالف سوشل میڈیا قوانین‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’شہریوں اور ریاست کو ایک ہی صفحے پر ہونا چاہیے اور یہ صرف بامعنی بات چیت اور موثر رابطے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔