سرتاج عزیز علاقائی کانفرنس کے لیے کابل میں
4 ستمبر 2015پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق سرتاج عزیز اپنے اس دورے کے دوران افغانستان سے متعلق اقتصادی امور کی چھٹی علاقائی کانفرنس (ریکا) میں شرکت کے علاوہ افغان صدر اشرف غنی اور وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
پاکستان اور افغانستان کےایک دوسرے پر دہشت گردی کی حمایت کے حالیہ الزامات اور سرحدی تناؤ میں اضا فے کے بعد سرتاج عزیز کا یہ کابل کا پہلا دورہ ہے۔
سرتاج عزیز کی کابل روانگی سے قبل جمعرات کی شام پاکستانی دفترخارجہ کے اعلیٰ سطحی ذرائع کا کہنا تھا کہ مشیر خارجہ دو ترجیحاتی پیغامات لے کر کابل جا رہے ہیں، جن میں پاکستان کے خلاف افغان حکومت کے پروپیگنڈے کی روک تھام اور طالبان کے ساتھ امن کے لیے مذاکرات کی بحالی شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق سرتاج عزیز افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں افغان حکام کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات روکنے پر زور دیں گے۔ افغان قیادت کو اس منفی بیان بازی کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بد اعتمادی بڑھنے اور کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے عملے کو لاحق خطرات کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے گا۔ پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر افغان قیادت کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے پاکستان کے خلاف منفی پراپیگنڈے سے گریز کی بھی تجویز دیں گے۔
دفترخارجہ کے ذرائع کے مطابق افغنستان مین قیام امن کے لیے پاکستان افغان حکام اور تحریک طالبان افغانستان کے درمیان مذاکرات کے عمل کو جاری رکھنے کے اپنے مؤقف کا اعادہ بھی کرے گا۔
خیال رہے کہ امریکہ اور چین کے نمائندوں کی موجودگی اور پاکستان کی میزبانی میں گزشتہ جولائی میں افغان حکام اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور مری میں منعقد کیا گیا تھا۔تاہم اس کے دوسرے دور کے انعقاد سے قبل طالبان کے سر براہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔اس کے بعد طالبان کی جانب سے افغان دا رلحکومت کابل اور دیگر شہروں میں حملوں میں تیزی کے بعد افغان حکام نے پاکستان کو ذمے دار قرار دیا تھا۔
افغان صدر اشرف غنی نے بھی پہلی مرتبہ کھل کر پاکستان پر تنقید کی تھی۔ افغان امور کے ماہر تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کا کہنا ہے کہ سرتاج عزیز کے دورے سے کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں کرنی چاہیے البتہ یہ پاکستان کا براہ راست مؤقف افغان قیادت تک پہنچانے کے سلسلے میں ضرور اہم ہے۔
انہوں نے کہا:’’موجودہ صورتحال میں افغان حکومت میں ایسے عناصر ہیں، جو طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مفاہمت اور پاکستان کے خلاف ہیں اور نہیں چاہتے کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری آئے اور بد قسمتی سے افغان صدر اشرف غنی، جو پہلے ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرتے نظر آتے تھے، اب ان کی طرح کی ہی باتیں کر رہے ہیں تو اب ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے لیے نہ سہی، اپنے ملک افغانستان کے لیے ہی وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کریں اور افغان امن عمل کے مخالفین کی امیدوں پر پانی پھیریں۔‘‘
محمود شاہ کے مطابق پاکستانی مشیر خارجہ کو افغان حکام پر یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ حملے پاکستان کی سرزمین سے افغانستان پر نہیں بلکہ افغانستان کی جانب سے پاکستان پر کیے جا رہے ہیں اور یہ حملے افغان خفیہ ایجنسی کی مدد سے وہ عناصر کر رہے ہیں، جنہیں آپریشن ضربِ عضب کی وجہ سے پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لینا پڑی ہے۔