سری لنکا میں 25 سالہ خانہ جنگی کا 'جلد خاتمہ'
19 مئی 2009سری لنکا ميں تامل ٹائيگر باغيوں کی شکست کے ساتھ پچيس سال سے بھی زيادہ عرصے سے جاری خونيں خانہ جنگی ختم ہو گئی ہے ۔ سخت گير صدر راجا پاکشے کے اس اعلان کے بعد کہ تنازعے کو فوجی طاقت کے ذريعے حل کيا جائے گا، يہ واضح ہوگيا تھا کہ فوج جلد يا بدير تامل ٹائيگرز کو شکست دے دے گی۔ تاہم ايسا اس قدر جلد اور اتنے واضح طور پر ہونے کی توقع کم ہی لوگوں کو تھی۔ اس بارے ميں ٹوماس بيرتھلائن کا لکھا تبصرہ:
خانہ جنگی کے فوجی طاقت کے ذريعے خاتمے کی مثاليں کم ہی ملتی ہيں ، خاص طور پر اس صورت ميں جب باغی سری لنکا کے تامل ٹائيگرز جيسے طاقتور اور انتہاپسند ہوں ۔ ان کی شکست اور سرکاری فوج کی فتح پر تمام باغی تحريکوں کو ، جو خانہ جنگی کو ،اپنے سياسی مقاصد کی تکميل کا ايک متبادل ذريعہ سمجھتی ہيں ، اپنی اس سوچ پر نظرثانی کرنا چاہئے۔ جو بروقت سمجھوتے پر رضامند نہيں ہوتا اسے کسی نہ کسی مرحلے پر يہ مشکل پيش آتی ہے کہ بات چيت کا وقت گذر چکا ہوتا ہے ۔
تامل ٹائيگرز کے انجام پر افسوس کی گنجائش نہيں ہے ۔ انہوں نےہی ، جنوبی ايشيا ميں اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں سے بہت پہلے خودکش حملوں کو ، ايک جنگی حربے کے طور پر اپنايا ۔ انہوں نے لاتعداد شہريوں کا خون بہايا اور منظم طورپر نابالغ فوجيوں کو بھرتی کيا ۔ تامل ٹائيگرز ميں ان کے قائد پربھا کرن کی شخصيت پرستی کا زور تھا اور مختلف سوچ رکھنے والے کسی تامل کو قطعی برداشت نہيں کيا جاتا تھا۔
اس فتح کی جو قيمت ادا کرنا پڑی ہے ، اُس کاصحيح اندازہ آنے والے دنوں ميں لگايا جاسکے گا۔ بے شمار شہری بھی ہلاک ، زخمی اور معذور ہو چکے ہيں اور بہت سے انتہائی صدمے کی حالت ميں ہيں ۔ اس کے علاوہ انتہاپسندی کا زہر سنہاليوں ميں بھی اسی طرح سرايت کرچکا ہے جيسے کہ تاملوں ميں ۔ گذشتہ مہينوں کے دوران سری لنکا ميں خوف وہراس اور عدم رواداری کی فضا چھائی رہی۔
بيرونی ممالک بجا طور پر سری لنکا کے صدر راجا پاکشے سے اپيل کررہے ہيں کہ وہ اب تاملوں کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائيں اور مصالحت کی جائے۔ ليکن موجودہ غير آزادانہ فضا ميں اس کے لئے تمام ہی فريقوں کو بہت زيادہ کوشش کرنا ہوگی تاکہ جمہوريت اور شہری حقوق بحال ہوں اور مخالف قومی گروپوں کے مابين اعتماد پيدا ہو ۔
يورپ کے لئے ،جس نے لمبے عرصے تک اس تنازعے ميں ثالثی کی کوششيں کيں ، سری لنکا کی حکومت کا، مذاکرات ختم کرکے فوجی حل کا راستہ اختيار کرنا، ايک بڑی ناکامی ہے۔ يورپ، يقينا سری لنکا کی تعميرنو ميں مدد دينے پر تيار ہے، ليکن اسے اس تنازعے کی تاريخ سے کچھ سبق بھی حاصل کرنا چاہیئں۔