سعودی شاہ عبداللہ کی رحلت، پاکستان میں سوگ
23 جنوری 2015ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے شاہ عبداللہ کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "مقدس مساجد کے متولی ہونے کے سبب ہر پاکستانی کے دل میں ان (شاہ عبداللہ) کا ایک خاص مقام تھا" ۔نواز شریف نے کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں پوری پاکستانی قوم اپنے سعودی بھائیوں کے ساتھ ہے۔"
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی طور پر انتہائی قریبی تعلقات قائم ہیں۔تاہم سعودی عرب کے مقتول بادشاہ شاہ فیصل کے دور میں یہ تعلقات مثالی طور پر پروان چڑھے۔اس کے بعد سعودی بادشاہوں خالد بن عبدالعزیز اور فہد بن عبدالعزیزکے دور میں بھی ان تعلقات میں خاصی گرمجوشی رہی۔افغان جہاد کے دوران امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے علاوہ سعودی خفیہ ایجنسی جی آئی ڈی کا انتہائی قریبی ورکنگ ریلیشن شپ قائم رہا۔
بعض حلقوں کے خیال میں اسی عرصے کے دوران سعودی عرب کے پاکستان کے اندر اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہوا۔ پاکستان کے فوجی آمر ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کے اندر انتہائی سرعت کے ساتھ پھیلنے والے دینی مدارس میں سے بھی متعدد کو براہ راست سعودی عرب کی مالی معاونت حاصل رہی۔ پاکستان میں مختلف ادوار میں قائم ہونیوالی حکومتیں تیل کی دولت سے مالامال اور معاشی طور پر مستحکم سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو خاص اہمیت دیتی آئی ہیں۔
پاکستان کی جانب سے 28 مئی سن 1998 کو ایٹمی دھماکے کیے جانے کے بعد سخت معاشی پابندیوں کے دور میں سعودی عرب کی طرف سے فراہم کیے گئے تیل نے پاکستانی معیشت کو سہارا دیے رکھا۔ اس لحاظ سے شاہ عبداللہ کے دس سالہ دور بادشاہت میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں کو بھی انتہائی اہم قرار دیا جاتا ہے۔2005 ء میں جب شاہ عبداللہ نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی حکومت قائم تھی۔ پرویز مشرف کے ہاتھوں اکتوبر 1999ء میں معزول کیے گئے وزیر اعظم نواز شریف بھی اس وقت سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ مبینہ طور پر سعودی حکومت نے پرویز مشرف اور نواز شریف کے درمیان ایک خفیہ معاہدے کے تحت نواز شریف کو اہل خانہ کے ہمراہ سعودی عرب میں پناہ دی تھی۔
یہی وہ وقت تھا جس کے بعد سعودی عرب کی پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں مبینہ مداخلت کے خلاف بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں۔سعودی عرب میں پاکستان کے سابق سفیر جاوید حفیظ کا کہنا ہے کہ "میں اس الزام کو اس لئے درست نہیں مانتا کہ مداخلت وہ ہے جو کوئی ملک خود سے کرے جبکہ پاکستان کے معاملے میں سعودی عرب کو اپنا کردار ادا کرنے کے لئے کہا گیا جو انہوں نے احسن طریقے سے نبھایا۔ سعودی عرب کی خواہش رہی ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر مظبوط رہے اور اس کے اداروں کی آپس میں لڑائی نہ ہو۔"
سعودی عرب کی جانب سےپاکستان میں اپنے مسلکی ایجنڈے کو توسیع دینے اور اس ضمن میں مدارس اور مختلف مذہبی اور فلاحی اداروں کی مالی امداد کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں جاوید حفیظ کا کہنا تھا کہ "میں اس بات کی کوئی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتا کیونکہ اس بارے میں ثبوت موجود نہیں۔پاکستانی وزیر داخلہ نے ابھی بیان دیا ہے کہ پاکستان میں نوے فیصد مدارس دینی تعلیم کی فراہمی میں مشغول ہیں اگر اس بیان کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایسے دینی مدارس کی معاونت میں کیا حرج ہے؟"
خیال رہے کہ روایتی طور پر سعودی عرب کے پاکستان میں مخصوص مذہبی جماعتوں کے علاوہ فوجی حکمرانوں اوردائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کے ساتھ تعلقات زیادہ قریبی اور دوستانہ رہے ہیں۔ اسی سبب پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں روایتی گرمجوشی دیکھنے میں نہیں آئی۔ موجودہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے بھی سعودی شاہی خاندان کے ساتھ قریبی تعلقات استوار ہیں۔