1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی اظہار

سوشل میڈیا پر افواہوں کا شتر بے مہار

13 دسمبر 2024

سوشل میڈیا پر اتنی عیاری سے تصاویر اور ویڈیوز میں مینا کاری کی جاتی ہے کہ جھوٹ اور افواہیں سچی خبریں لگتے ہیں۔ کسی بھی افواہ کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ جتنی بڑی ہو گی، اس کی تردید بھی اتنی ہی اہم شخصیت کو کرنا پڑے گی۔

https://p.dw.com/p/4nmwZ
DW Urdu, Tabindah Khalid, Blogger
تصویر: Privat

ہر معاشرے میں ایسے مخصوص مزاج کے لوگ ہوتے ہیں، جن کا محبوب مشغلہ بے پرکی اڑانا اور غلط افواہیں پھیلانا ہوتا ہے۔ گزرے وقتوں میں کسی افواہ کو پھیلنے میں وقت لگتا تھا۔ اب لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے من گھڑت اطلاعات چند لمحوں میں ہی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل جاتی ہیں۔ ماضی میں لوگ کسی بھی خبر کی تصدیق کرنے کے بعد اسے آگے کسی اور کو بتاتے تھے جبکہ دور حاضر میں میں سچ جاننے کی کوئی جستجو اکثر کی ہی نہیں جاتی۔

آج کل دروغ گوئی سے یا مذاق کے نام پر کسی کو دھوکہ دینا، بے وقوف بنانا اور ذہنی اذیت دینا نہ صرف جائز سمجھا جاتا ہے بلکہ کسی کو بھی بوکھلاہٹ میں مبتلا کرنے کو بھی کمال مہارت قرار دیا جاتا ہے۔ جو شخص جتنی چابک دستی اور جتنی زیادہ اداکاری سے دوسروں کو گھما کر رکھ دے، اسے اتنا ہی ذہین و فطین سمجھا جاتا ہے۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا کے سحر میں سبھی گرفتار ہیں، جو ویڈیو یا پوسٹ بھی نظر سے گزرے، اسے بغیر کسی تحقیق کے پورا سچ سمجھتے ہوئے من و عن قبول کر لیا جاتا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں فرق یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر کوئی خبر باوثوق ذرائع سے نشر کی جاتی ہے جبکہ سوشل میڈیا بے لگام ہے، جہاں مستند ذرائع تو دور کی بات خبروں کے نام پر بعض معلومات تو عمومی اخلاقیات کی حدود و قیود سے بھی آزاد ہوتی ہیں۔ ایک خاص ایجنڈے کے تحت ایک من مانی خبر گھڑی جاتی ہے، جو ظاہر ہے جھوٹی ہوتی ہے، اور پہلے اسے ایک اکاؤنٹ سے شیئر کیا جاتا ہے، جس کے بعد بہت سے مخصوص اکاؤنٹس سے اسے ری شیئر بھی کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پھیلتے پھیلتے یہ 'خبر‘ عام صارفین تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ تب وہ بھی اسے شیئر کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح ایس ایم ایس، واٹس ایپ، فیس بک، ایکس یا سابقہ ٹوئٹر، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور میٹا میسنجر کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ سوچنے کی بات بس یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال اپنے آپ میں برا نہیں، اگر ہم خود اسے برا نہ بنائیں تو۔

افواہوں کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ ایک قسم وہ بھی ہوتی ہے، جس میں من گھرٹ الزامات پر مبنی کسی پوسٹ کے ذریعے جھوٹا پروپیگنڈا کیا جائے اور سیاسی انتشار اور بے چینی کو ہوا دی جائے۔ اس میں سیاست دانوں، بیوروکریٹس یا اعلیٰ عہدوں پر فائز دیگر افراد پر ذاتی حملے کیے جاتے ہیں اور ان کی  پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ جانور تو جانور،  مثال کے طور پر آلو، پیاز وغیرہ جیسی سبزیوں کو سیاست دانوں کے چہروں سے مشابہت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاﹰ ایک سیاسی پارٹی اپنی منفی سرگرمیوں اور افواہوں کے ذریعے اپنی مخالف کسی دوسری سیاسی جماعت کی ساکھ داغدار کرنے میں مشغول رہتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ فلاں جماعت نے یہ کہہ دیا یا وہ کر دیا، حالانکہ حقیقت ایسے بیانات سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ ایسی افواہوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام کسی نتیجے پر نہ پہنچیں اور ملک بہتر قیادت سے محروم رہے۔

بعض افواہیں خوش فہمیوں کے پس منظر سے بھی ابھرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہر سال بجٹ سے پہلے پاکستان میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے بارے میں کئی خوش کن افواہیں پھیلتی ہیں۔ ملازمین مسحور کن کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں اور جب بجٹ آتا ہے تو وہ حکومت سے نالاں ہی رہتے ہیں۔

کچھ افواہیں تجسس پیدا کرنے کے لیے بھی وجود میں آتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ آسمان سے یکدم ایک بوڑھی پری گری اور مر گئی۔ اس کے علاوہ شارجہ کے ساحل پر نظر آنے والی مبینہ جل پریوں سے متعلق یہ افواہ پھیلی کہ ان کے بالائی دھڑ انتہائی حسین عورتوں جیسے اور نچلے دھڑ مچھلیں کے تھے۔ اس ضمن میں فوٹوگرافر نے ڈیجیٹل کاری گری سے مچھلی اور عورت کی تصویروں کے پیوند لگا کر ایک فوٹو بنائی اور وہ انٹرنیٹ پر وائرل ہو گئی۔ ان افواہوں کا مقصد لوگوں کے اذہان و قلوب کو سحر میں مبتلا کر کے مسخر کرنا تھا۔

بعض افواہیں مذہبی جذباتیت کو بڑھانے کے لیے بھی گھڑی اور پھیلائی جاتی ہیں۔ مثلاً ایسی ویڈیوز جو یہ ظاہر کرتی ہوں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت غیبی بزرگ کر رہے ہیں یا پھر یہ کہ سرحدوں کی حفاطت کے لیے سبز چولوں والی کوئی مخلوق مامور ہے۔

افواہ سازی کے میدان کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کوئی افواہ جتنی بڑی ہوتی ہے، اس کی تردید بھی اتنی ہی اہم، بااثر یا مقتدر شخصیت کو کرنا پڑتی ہے، ورنہ شبہات اور ابہام بھلا یوں ہی تو دور نہیں ہوتے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔