سوچی کا رہائی کے بعد پہلا سیاسی خطاب
14 نومبر 2010آؤنگ سان سوچی کے ساتھ میانمار کے عوام کی ایک بڑی تعداد کی امیدیں وابستہ ہیں اور سوچی کو ملک میں جمہوریت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ میانمار میں گزشتہ پچاس برس کی فوجی آمریت اور سوچی کی برس ہا برس کی قید کے بعد اب اس ملک کے عوام میں یہ امید دیکھی جا رہی ہے کہ شاید وہ اب جمہوریت اور بہتر مستقبل کی منزل سے زیادہ دور نہیں ہیں۔
نوبل امن انعام یافتہ آؤنگ سان سوچی کی سات سالہ نظربندی کے خاتمے کے ہفتہ کے روز کئے گئے اعلان کے بعد ہزاروں افراد ان کے گھر کے باہر جمع ہو گئے تھے۔ اس موقع پر سوچی نے فوجی آمریت کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور عوام کے بہت بڑے ہجوم سے کہا: ’’مجھے خوشی ہے کہ آپ نے مجھے خوش آمدید کہا ہے اور میرا ساتھ دیا ہے۔ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ وہ وقت آنے والا ہے جب آپ کو باہر نکلنا ہو گا، اس وقت کوئی پیچھے نہ رہے۔‘‘
65 سالہ سوچی نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ اتوار کی دوپہر کو ان کی جماعت کے ہیڈکوارٹرز پر جمع ہوں، جہاں وہ ان سے براہ راست خطاب کریں گی۔ گزشتہ سات برسوں میں سوچی کا یہ پہلا عوامی سیاسی خطاب ہو گا۔
اپنی رہائی کے بعد اس مختصر بیان میں سوچی نے گو کہ زیادہ گفتگو نہیں کی تاہم سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ سوچی کی کوشش یہی ہو گی کہ منقسم اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے تاکہ عوام کی ان سے وابستہ توقعات کو کسی طرح پورا کیا جا سکے۔ سیاسی ماہرین ان خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ اس قدر بلند توقعات کا بوجھ سوچی کے لئے پریشانی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
میانمار میں گزشتہ دو دہائیوں میں پہلی مرتبہ گزشتہ ہفتے انتخابات منعقد ہوئے تھے، تاہم ان انتخابات کو عالمی برادری کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ عالمی رہنماؤں کا خیال ہے کہ سخت ترین ضوابط کے باعث جمہوری قوتوں کو انتخابات میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے سے نہ صرف روکا گیا بلکہ فوجی آمریت کا ساتھ دینے والی جماعتوں کی کامیابی کے لئے حکومتی مشینری نے بھی پوری طرح معاونت کی اور انتخابات دراصل فوجی حکومت کے تسلسل ہی کا حصہ تھے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک